Tuesday, 23 September 2014

نا جائز !!!


بہت اُلجھی ہوئی ہوں
بہت سہمی ہوئی ہوں
میری سوچوں کا ملبہ خُود مُجھی پہ گر رہا ہے
سوالوں کی جو گٹھری اس جواں بچی کے پھولے پیٹ میں پلتی ہے
اُس کی کرب سے پھٹتی ہوئی آنکھون سے دکھتی ہے
اذیت کے تشنُج سے وہ خُوں آلود ناخُونوں سے خُود کو مارے دیتی ہے
کوئی ایسا نہیں جو اُس کو سینے سے لگا کے تھوڑی ڈھارس دے
کوئی اس سے کہے کہ چند ہی گھنٹوں میں وہ اس درد سے آزاد ہو گی
مگر کوئی بھی اُس سے کُچھ نہیں کہتا
نہ اُس کے پاس رُکتا ہے
سبھی کترا کے
اپنے ناک منُہ پہ ہاتھ رکھ کے یوں گُزرتے ہیں
کہ جیسے گندگی کی پوٹ
وہ کیڑوں بھری لڑکی اُنھیں برباد کر دے گی
" طوائف ہے "
یہ سرگوشی کلینک کے فرش پہ سر پٹکتی بین کرتی ہے
تو یہ بدحال اور بدذات چھوری آج سے کُچھ ماہ پہلے تک
کسی بستر پہ چادر بن کے بچھتی تھی
یہاں اس حال میں ہے کہ
زمیں پھٹتی ہے نہ یہ آسماں گرتا ہے اس چنڈال چھوری پہ
یہ بچہ اس جہاں میں آکے کسطرح سے خُود کو یہ بتائے گا
کہ وہ ناپاک ہے
گندہ ہے
ناجائز غلاظت ہے
نہ اُس کا باپ ہے کوئی
نہ اُس کی ماں کا شوہر ہے
کسی کو اُس سے
اُس کی ماں سے ہمدردی نہیں ہے
تو اب میں سر کو تھامے سوچتی ہوں
اگر یوم _ حشر ہر فرد اپنی ماں کے پہلے نام کی تختی لئے جاگے گا تو
یہ کس کا بچہ ہے ؟
یہ جائز یا نا جائز ہے
یہ سارے فیصلے اک ماں کرے گی؟
مگر یہ بات دُنیا کی سمجھ مین کیوں نہیں آتی؟
بہت اُلجھی ہوئی ہوں
میری سوچوں کا ملبہ خُود مُجھی پہ گر رہا ہے
ثمینہ تبسُم

مجازی خُدا !!!


میرے کُچھ کہنے سے پہلے
تُم مُجھے سُنتے ہو
کُچھ مانگنے سے پہلے 
نوازتے ہو
میری تنہائی میں
میرا سہارا ھو
اور ہجُوم میں
میرے واحد ساتھی ہو
تُمہاری ایک نظر
مُجھے مالا مال کردیتی ہے
تُمہارا لمس
مُجھ میں حرف کُن پھونک دیتا ہے
مُجھے دیکھ کر
تُمہاری آنکھیں شدت جذبات سے بھیگ جاتی ہیں
اور یہ نمی میری رُوح کو سیراب رکھتی ہے
تُم میرے ہونے کی وجہ ہو
میری جان
میرے لیئے تُم مُحبت کے خُدا ہو
اور میں مُحبت میں بھی توحید کی قائل ہوں
ثمینہ تبسُم

معذرت کے ساتھ !!!


میں مُعافی چاہتی ہوں پر
اصل مسلئہ نہ غُربت ہے
جہالت ہے
نُمائش ہے
کرپشن ہے
اصل مسلئہ ہمی خُود ہیں
ہم اپنے نفس کے اندھے کنویئں میں قید مینڈک ہیں
زبانیں تو بہت چلتی ہیں
باتیں خُوب بنتی ہیں
مگر جب وقت آتا ہے دیواروں کے گرانے کا
تو اپنی ذات سے باہر ہمیں کُچھ بھی نہیں دکھتا
کہ شوہ بازی کے جس رستے پہ اب ہم چل پڑے ہیں
وہاں پہ ڈگریاں ہم سے کرپشن ہی کراتی ہیں
کوئی قائد ، کوئی اقبال کی تصویر کے آگے کھڑا ہو کر
ہمارا اصل خدمت گار ہونے کے بہت نعرے لگاتا ہے
اصل میں وہ مداری ہے
ہمیں روٹی کے اک ٹُکڑے یا چادر ، چار دیواری کی لے پہ یوں نچاتا ہے
کہ جیسے ڈُگڈُگی کی لے پہ بندر جُھوم جاتے ہیں
تو اپنی مستیوں میں مست ہم وہ قوم ہیں جس کو
ہمیشہ یاد رکھنا ہے
ہم اپنے گھر میں جو کُچھ ہیں
ہمارے پاس جو کُچھ ہے
وہ پاکستان کا بخشا ہوا ہے
کبھی فُرصت ملے تو سوچئیے گا
کہ پاکستان کو ہم نے ۔۔۔۔۔ دیا کیا ہے ؟
ثمینہ تبسُم

میرے لوگو !!!


خُدا کی مہربانی ہے
میرے رب نے مُجھے بےحد نوازا ہے
یہاں پردیس میں مُجھ کو ہر اک نعمت مُیسر ہے
مگر یہ دل بہت بے چین رہتا ہے
سسکتا ہے
مچلتا ہے
اُنھی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرنے کو
جہاں میں نے میرے بچپن جوانی کے سُنہرے دن گُزارے تھے
وہاں کی بارشوں میں بھیگ کر بیمار پڑنے اور بہتی ناک چادر میں سُڑکنے کو
وہاں ہر عُمر اور سائز کے بچوں سے بھرے صحنوں میں اُن کا شور سُننے کو
وہاں باورچی خانوں سے نکلتی خُوشبوُؤں میں سانس لینے کو
وہاں پہ کوسنے دیتی ہوئی ماؤں پہ باپوں کے بگڑنے کا بہت دلچسپ منظر دیکھنے اور اُن پہ ہنسنے کو
وہاں فُرصت سے بیٹھے اُونگتے بُوڑھوں سے آُن کی نوجوانی میں ہوئے قصوں کے سُننے کو
بڑے چھوٹوں سے بالکل مُفت ملتے مشورے بڑھ بڑھ کے لینے کو
بہت ہی دل مچلتا ہے
تڑپتا ہے
سسکتا ہے
میرے لوگو
میں جیسی ہوں
جہاں بھی ہوں
تُمہی سے ہوں
میں تُم سے پیار کرتی ہوں
ثمینہ تبسُم

آج کل ان اسلام آباد !!!


" سُنتے ہو جی کیا کہتی ہُوں ؟ "
" کیا کہتی ہو ؟ "
" کب آؤ گے ؟ "
" جب تُم چاہو "
" سچ کہتے ہو ؟ "
" سچ کہتا ہوں "
" مت جاؤ ناں "
" لو نہیں جاتا "
" فُون کرو کہ دھرنے پہ ہو ۔۔۔ آ نہیں سکتے "
" کر دیتا ہوں ۔۔۔۔ تُم تو میری جان ہو جانم ۔۔۔ آجاؤ ناں "
" چھوڑو بھی یہ چُوما چاٹی ۔۔۔۔ اس سے پہلے بتی جائے کپڑے دھو لو "
" آلو گوشت بنا کے تُم بھی آجانا ریڈ زون کے اندر "
" پہلے ہم تقریر سُنیں گے ۔۔۔ نعرے بازی بھی کر لیں گے "
" پھر کل کس نے کیا کرنا ہے ۔۔۔ ڈسکس کر کے گھر آئیں گے "
" سُنتے ہو جی ۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ تبسُم

Saturday, 13 September 2014

عمران خان !!!


سُنو
کل تک جو مٹی اپنے ماتھے سے لگا کر
اک نظر تُم آسمانوں کی طرف تکتے تھے
بازی جیت لیتے تھے
اُسی مٹی میں ہم نے اپنی نسلوں کا مُقدر بو دیا ہے
تو اب تُم ہو
یہ دھرتی ماں ہے
اللہ ہے
تو خالی ہاتھ مت آنا
کہ ہم سب نے
تُمہارے نام کی چادر کا جو جھنڈا بنایا ہے
اُسے ہم نے نئی صُبح کے سُورج سے سجانا ہے
قدم آگے بڑھانا تُم
کہ خالی ہاتھ مت آنا
کہ خالی ہاتھ مت انا
ثمینہ تبسُم

پاکستان زندہ باد !!!



ہم جو بھی ہیں
ہم جیسے ہیں
ہم سارے پاکستانی ہیں
آپس کے جھگڑے ایک طرف
سب مسلئے مسائل ایک طرف
جب بات ہو پاکستان کی تو
تن من دھن سے سب ایک طرف
ہم کل بھی تھے
ہم آج بھی ہیں
باقی سب آتے جاتے ہیں
خدمت گاروں کو ہم نے اب سوچ سمجھ کے چُننا ہے
اگلی نسلوں کے لیئے نیا اک پاکستان بنانا ہے
ہم پاکستان کے دم سے ہیں
ہم جو بھی ہیں
ہم جیسے ہیں
ہم سارے پاکستانی ہیں
ثمینہ تبسُم

مُکافات عمل !!!


عمران خان
ذرا ٹھہرو
اب اس سے بیشتر کہ تُم فتح کا تاج پہنو
اب اس سے بیشتر کہ تُم بھی تکبر کے کسی رستے پہ چل نکلو
اور اس سے بیشتر کہ تُم بھُول جاؤ کہ تُم ہمارے خدمت گار ہو
ایک بار خُود سے پُوچھ لو
کہ تُم سے بیشتر جو لوگ تھے
وہ کون تھے ?
کہاں سے آئے تھے ?
اور اب کہاں ہیں ?
اور خُود کو یاد دلاؤ
وہ سب نعرے
جو بےشُمار مُردہ ہونٹ مرنے سے ذرا پہلے لگاتے تھے
وہ سب آنکھیں
جو مٹی میں دفن ہو کے بھی زندہ ہیں
وہ سب وعدے
جو وقت کی سُولیوں پہ لٹکے تُمہاری راہ تکتے ہیں
اور یاد رکھنا
کہ خُدا سب سے بڑا مُنصف ہے
ثمینہ تبسُم

پریگننٹ !!!


سوتے سوتے جاگ رہی ہوں
جاگی جاگی سوئی پڑی ہوں
روتے روتے ہنس پڑتی ہوں
ہنستے ہنستے ڈر جاتی ہوں
بس نہیں چلتا
لیکن بھر پھی
دل کرتا ہے
اپنی ناف سے جھانک کے دیکھوں
آخر میرا
سوہنا موہنا
گُوچُو مُوچُو
کیا کرتا ہے ؟
جب بھی اُس کی ننھی کوہنی یا بھر گُھٹنا
میری پسلی میں چُبھتا ہے
دل دُکھتا ہے
میرا بجہ کیا چاہتا ہے ؟
بھُوک لگی ہے ؟
چھی چھی کی ہے ؟
گھُپ اندھیرے میں ڈرتا ہے ؟
اتنی تنگ جگہ پہ اُس کا دم گھُٹتا ہے ؟
آخر کیا ہے ؟
بُوجھتی ہوں
باتیں کرتا ہے
کہتا ہے،
” میں ٹھیک ہوں امی “
” خُوش ہوں امی “
” اک دن آپ کی گود میں آکر آپ کا بیٹا بن جاؤں گا “
ہنس پڑتی ہوں
رو پڑتی ہوں
سوچتی ہوں
پھر ڈر جاتی ہوں
یعنی اب میں دو رُوحی ہوں ؟

شادی ؟


اٹھارہ سال کی ہوں
اور میرا پاؤں بھاری ہے
میرے شوہر
جو چالیس سال سے زیادہ عُمر کے ہیں
بہت ناخُوش ہیں
مُجھ سے اور اس دو ماہ کے بچے سے
جو اس دُنیا میں آیا بھی نہیں ہے
وہ کہتے ہیں
” میرے پہلے سے چھ بچے ہیں
اور دو بیویاں بھی ہیں
بہت مہنگائی ہے
کیسے بھلا میں سب کو پالوں گا
تُمہاری عُمر ہی کیا ہے
تُم اتنی خُوبصُورت ہو
کمر پتلی
تنی چھاتی
مُجسم حور لگتی ہو
یہ بچہ جسم کی جادوگری برباد کر دے گا
صُبح میں فُون کر دوں گا کلینک پہ
دفع کر دو مُصیبت یہ
پھر اس کے بعد ہم کشمیر میں کُچھ دن گُزاریں گے
تُمہیں شاپنگ کراؤں گا
نیا زیور دلاؤں گا
میری جاں یاد رکھنا کہ مُجھے تُم سے مُحبت ہے “
پھر اس کے بعد کیا ہو گا ؟
یہی ہوتا رہے گا کیا ؟
اسی کا نام شادی ہے ؟
سوالوں کی یہ گٹھڑی
کوکھ میں پلتے ہوئے بچے کی نازُک پیٹھ پہ رکھے
میں اپنی ماں کے گھر آنگن میں بیٹھی بین کرتی ہوں
اٹھارہ سال کی ہوں
اور میرا پاؤں بھاری ہے
ثمینہ تبسُم

کزن میرج !!!


ہسپتال کا کمرہ
قبر جیسا لگتا ہے
آسمان ٹُوٹا ہے
آج یوم ـ محشر ہے
جسم پہ تشننُج ہے
ایڑیاں رگڑتی ہوں
درد اسقدر ہے کہ
جاں نکلنے والی ہے
یاد ہے مُجھے وہ دن
اپنے حمل کا سُن کے
میں خُوشی سے پاگل تھی
ڈاکٹر یہ کہتی تھی
معجزہ ہے یہ کوئ
میرے پیٹ میں میرے
پہلے پہلے بچے کی
میٹھی میٹھی حرکت تھی
مُجھ کو ایسا لگتا تھا
میری بند مُٹھی میں
جیسے کوئی تتلی ہو
روز اک نیا دن تھا
روز اک کہانی تھی
کتنی معتبر تھی میں
میرے پاؤں کے نیجے
جنت آنے والی تھی
سب کو ایسا لگتا تھا
دن بدن نکھرتی ہوں
چاند جیسا چہرہ ہے
تارا تارا آنکھیں ہیں
کہکشاں پہ چلتی ہوں
آسماں کو چُھوتی ہوں
نظر بد نہ لگ جائے
ہونے والے بچے کو
روز آیت الکُرسی
پڑھ کے پُھونک لیتی تھی
صدقہ دیتی رہتی تھی
اور دُعائیں کرتی تھی
پانچواں مہینہ تھا
اور خُوش تھی میں کہ اب
چند ہی مہینوں میں
ایک چاند سا بیٹا
میری گود میں ہوگا
پر نصیب کا لکھا
کون ٹال سکتا ہے
کیا بُری گھڑی تھی وہ
درد کی کٹاری سے
رُوح بھی چیخ اُٹھی تھی
جسم خُون میں تر تھا
میری جان کا ٹُکڑا
میرا بجہ مُردہ تھا
ڈاکٹر کا کہنا ہے
نسل در نسل اکثر
فیملی میں شادی سے
اس طرح سے ہوتا ہے
خُوں کا کمبی نیشن کُچھ
اس طرح بگڑتا ہے
کہ حمل ٹھہرتا ہے
اُس میں جاں بھی پڑتی ہے
پر وہ جی نہیں سکتا
بجہ ہو نہیں سکتا
آسمان ٹُوٹا ہے
ہسپتال کا کمرہ
قبر جیسا لگتا ہے
ثمینہ تبسُم