Saturday, 13 September 2014

کزن میرج !!!


ہسپتال کا کمرہ
قبر جیسا لگتا ہے
آسمان ٹُوٹا ہے
آج یوم ـ محشر ہے
جسم پہ تشننُج ہے
ایڑیاں رگڑتی ہوں
درد اسقدر ہے کہ
جاں نکلنے والی ہے
یاد ہے مُجھے وہ دن
اپنے حمل کا سُن کے
میں خُوشی سے پاگل تھی
ڈاکٹر یہ کہتی تھی
معجزہ ہے یہ کوئ
میرے پیٹ میں میرے
پہلے پہلے بچے کی
میٹھی میٹھی حرکت تھی
مُجھ کو ایسا لگتا تھا
میری بند مُٹھی میں
جیسے کوئی تتلی ہو
روز اک نیا دن تھا
روز اک کہانی تھی
کتنی معتبر تھی میں
میرے پاؤں کے نیجے
جنت آنے والی تھی
سب کو ایسا لگتا تھا
دن بدن نکھرتی ہوں
چاند جیسا چہرہ ہے
تارا تارا آنکھیں ہیں
کہکشاں پہ چلتی ہوں
آسماں کو چُھوتی ہوں
نظر بد نہ لگ جائے
ہونے والے بچے کو
روز آیت الکُرسی
پڑھ کے پُھونک لیتی تھی
صدقہ دیتی رہتی تھی
اور دُعائیں کرتی تھی
پانچواں مہینہ تھا
اور خُوش تھی میں کہ اب
چند ہی مہینوں میں
ایک چاند سا بیٹا
میری گود میں ہوگا
پر نصیب کا لکھا
کون ٹال سکتا ہے
کیا بُری گھڑی تھی وہ
درد کی کٹاری سے
رُوح بھی چیخ اُٹھی تھی
جسم خُون میں تر تھا
میری جان کا ٹُکڑا
میرا بجہ مُردہ تھا
ڈاکٹر کا کہنا ہے
نسل در نسل اکثر
فیملی میں شادی سے
اس طرح سے ہوتا ہے
خُوں کا کمبی نیشن کُچھ
اس طرح بگڑتا ہے
کہ حمل ٹھہرتا ہے
اُس میں جاں بھی پڑتی ہے
پر وہ جی نہیں سکتا
بجہ ہو نہیں سکتا
آسمان ٹُوٹا ہے
ہسپتال کا کمرہ
قبر جیسا لگتا ہے
ثمینہ تبسُم

No comments:

Post a Comment