Tuesday, 11 November 2014

لگیاں دی پیڑ


 جب دل چاکی عشق سمُندر ڈُب جائے
تب ساری دُنیا لُوںڑیں لُوںڑیں لگدی اے
فِر اکھاں دے وچ چانڑ جوت جگاندا اے
فِر مٹھی مٹھی پیڑ کلیجہ ساڑدی اے
فِر پتہ پتہ رانجھا رانجھا کُوکدا اے
فِر جیندا جاگدا بندا مُک مِٹ جاندا اے
رُل جاندا اے
پر ایس رُلے جاون دا
چَس بڑا ای آوندا اے

جب دل چاکی۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ تبسُم

طلسم


 اور
یہ میں ہوں
کہ ہے کوئ جادُو گری

اور
یہ تُم ہو
کہ ہے اسمِ اعظم کوئی
لذتِ عشق سے بڑھ کے کُچھ بھی نہیں
بس یہی
بس یہی
بس یہی
ثمینہ تبسُم

عین عشق



ڈاہڈے دے سنگ
ڈاہڈی لگی
ڈاہڈی میں کُرلاواں

حال او کھیڈے
من ویڑے اچ
تِل تِل مر دی جاواں
ٴچاک تے بیٹھا
وَن سوّنے
باوے کَڑدا جائے
دُنیا دی پَٹھی وچ سُٹے
پَارس وانگ پکائے
پَک جاوے تے توڑ بَڈاوا
چاک تے فیر چڑھائے
کِھڑ کِھڑ ہسّدا جائے
.....
کِھڑ کِھڑ ہسّدا جائے
ثمینہ تبسُم

لیلتُہ المُحبت !!!


 چاندنی کے رُوپہلی آنچل میں اپنا جگمگاتا مُکھڑا چھُپائے
چودھویں کا مُکمل چاند
کینڈل لائیٹ ڈنر
گُلابوں اور موتیئے کی سحر انگیز خُوشبو
جادُوئی موسیقی
بارش کی بُوندوں کا ہلکا سا ترنُم
سائیوں کی طرح چلتے ویٹرز
کانٹوں اور چمچوں کی ہلکی سی کھنکھناہٹ
کھانے اور ریڈوائن کی اشتہا انگیز مہک
سیاہ سُوٹ سے اُٹھتا جذبات کا اک خاموش طُوفان
سگرٹ اور قیمتی پرفیوُم کا اُس کی طرف مائل کرتا ہوا جادُو
ڈانس کی دعوت دیتا
نفاست سے کٹے ناخُونوں اور مضبُوط اُنگلیوں سے مرصع
ایک نرم، گرم اور سانولا ہاتھ
ڈانس فلور پہ تھرکتے ہوئے قدموں میں در آتی قُرب کی خواہش
کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے
مہکتے خواب
نشیلی آنکھیں
اور بےقرار خواہش
صُبح کی سُرمئی چادر کو
دھیرے دھیرے اپنے چہرے سے سرکاتا ہُوا بے صبر سُورج
باتھ رُوم میں بےترتیبی سے گرے پڑے
کُچھ بڑے ، کُچھ چھوٹے تولیئے
بیڈ پہ یہاں وہاں
آڑے تِرچھے پڑے
چُرمُرائے ہوئے تکئیے
بستر کی بےشُمار شِکنوں سے جھانکتی ہوئی
وصل کی سیراب خواہش
نائیٹ ٹیبل پہ رکھے کارڈ پہ گُنگُناتا ہُوا
ہنی مُون سُوئیٹ !!!
ثمینہ تبسُم

جادُو گرنی


 ہجر کے گُھنگھرو باندھے
وہ ایک ایسی دُھن پہ دیوانہ وار رقص کرتی ہے
جو کسی بانسری کی اُونچی لے
اور کچے گھڑے کی دھیمی تھاپ کے سنگم سے جنم لیتی ہے
تیشے کی نوک پہ تھرکتی
گھوڑوں کے سُموں تلے کُچلی جاتی
ریتلے طُوفانوں میں دم گُھٹ کے مرتی
اور بپھرے ہوئے پانیوں میں غرق ہوتی
ہر زنجیر کو توڑتی
ہر دیوار کو گراتی
ہر زندہ دل پہ سحر پُھونک دیتی ہے
اُس پہ اُنگلیاں اُٹھتی ہیں
اِلزام لگتے ہیں
سنگسار ہوتی ہے
عزت کے نام پہ قتل ہوتی ہے
وٹہ سٹہ میں برباد ہوتی ہے
بکریوں کی طرح بِکتی ہے
قُرآن اور جاےءنماز سے بیاہی جاتی ہے

نہ مداری تھکتے ہیں
نہ تماشائی
نہ کٹھ پُتلیاں
مُحبت کبھی نہیں مرتی
ثمینہ تبسُم

تشبہہ !!!


 میں اکثر سوچتی
چڑتی تھی
جب لوگوں سے ملتی تھی
میری امی یہ کہتی تھیں
کہ بچے پیڑ پہ
پودوں پہ اُگتے ہیں
تو پھر میں خُوب ہنستی تھی

کبھی ابُو
کبھی امی
کبھی انکل
کوئی آنٹی
کسی جنگل میں جا کر کوئی سا بچہ اُٹھا لاتے
تو میں حیران ہوتی تھی
" ہمارے باغ میں جو سبزیاں، پھل پھول اُگتے ہیں
وہ سب ننگے کیوں ہوتے ہیں؟"
یا یہ کہ
" یہ جو انکل ہیں، یہ آخر کس قسم کے پیڑ سے توڑے گئے تھے؟"
" یہ آنٹی کس طرح کی بیل پہ لٹکی ہوئی تھیں؟"
میرے چاروں طرف
کدّو ، کریلے ، اور بیگن تھے
کوئی لوکی ، کوئی بھنڈی ، کوئی توری ، کوئی گوبھی
کوئی پھیکا، کوئی کڑوا ، کوئی چپکُو ، کوئی بھدّا
سوالوں سے بھری آنکھیں
میرے ذہنی اُفق پہ اس طرح کا پینٹ کرتی تھیں
کہ میں لوگوں سے ڈرنے لگ گئی تھی
ابھی تک
سبزیاں کھانا
مُجھے اچھا نہیں لگتا !!!
ثمینہ تبسُم

جہنُم !!!


 تُم بھوکے رہو
پیاسے رہو
ترستے رہو
تاکہ
تُمہیں اندازہ ہو
اُس بھوک کا
اُس پیاس کا
اُس طلب کا
جو میری رُوح محسوس کرتی ہے
جب میں بڑی بڑی یُونیورسٹیاں دیکھتی ہوں
جب میں لائیبریری میں جا کر گُم سُم ہو جاتی ہوں
جب میں اپنی کم علمی پہ تڑپتی ہوں
مُجھ سے پُوچھو
محرومی کیا ہوتی ہے

ثمینہ تبسُم