مُجھے بھی شرم آتی ہے
مگر کہنا ہی پڑتا ہے
کہ چُپ رہ کر میں جو کُچھ دیکھتی سُنتی ہوں
اُس کو سہہ نہیں سکتی
میں بیٹی ہوں
بہن بھی ہوں
میں اک ماں ہوں
میرے لوگوں کا کہنا ہے
مُجھے یہ چاہیئے کہ میں
نظر نیچی کئیے
چُپ کر کے
ہر اک بات کو سُن کر
دُوپٹہ مُنہ پہ رکھ لوں
دانت میں اُنگلی دبا کر شرم کے مارے
اندھیری کوٹھری میں جا چُھپوں
اور جسم کے حیرت کدے میں
دھیرے دھیرے کھل رہی
خواہش کی کلیاں چُن کے اپنے آپ کو سیراب کر لوں
جہالت کے یہ کیڑے جو میرے نازُک بدن کو کھا رہے ہیں
جو امراضِ پوشیدہ میرے اندر پل رہے ہیں
اُنھیں اگلی نسل میں مُنتقل کر کے
اندھیری کوٹھری میں جان دے دُوں
میں انساں ہوں
میں جسمانی مریضہ ہوں
مُجھے تعویز گنڈوں کی
یا جادُو منتروں کی آگ میں جھونکو گے
سب برباد کر دو گے
مُجھے صدیاں لگی ہیں یہ اندھری کوٹھری مسمار کرنے میں
تو اب چُپ چاپ سر پہ مشرقیت کا سُنہرا تاج پہنے بیٹھنا مُمکن نہیں ہے
ثمینہ تبسُم
بہن بھی ہوں
میں اک ماں ہوں
میرے لوگوں کا کہنا ہے
مُجھے یہ چاہیئے کہ میں
نظر نیچی کئیے
چُپ کر کے
ہر اک بات کو سُن کر
دُوپٹہ مُنہ پہ رکھ لوں
دانت میں اُنگلی دبا کر شرم کے مارے
اندھیری کوٹھری میں جا چُھپوں
اور جسم کے حیرت کدے میں
دھیرے دھیرے کھل رہی
خواہش کی کلیاں چُن کے اپنے آپ کو سیراب کر لوں
جہالت کے یہ کیڑے جو میرے نازُک بدن کو کھا رہے ہیں
جو امراضِ پوشیدہ میرے اندر پل رہے ہیں
اُنھیں اگلی نسل میں مُنتقل کر کے
اندھیری کوٹھری میں جان دے دُوں
میں انساں ہوں
میں جسمانی مریضہ ہوں
مُجھے تعویز گنڈوں کی
یا جادُو منتروں کی آگ میں جھونکو گے
سب برباد کر دو گے
مُجھے صدیاں لگی ہیں یہ اندھری کوٹھری مسمار کرنے میں
تو اب چُپ چاپ سر پہ مشرقیت کا سُنہرا تاج پہنے بیٹھنا مُمکن نہیں ہے
ثمینہ تبسُم
No comments:
Post a Comment