Tuesday, 11 November 2014

کب آؤ گے ؟


 بے خُودی
مستیاں
خُوشبُوئیں لے کے دل میں دھڑکتا ہُوا
ایک آسُودہ خواہش کا مہکا بدن

نرم ہاتھوں پہ دُلہن سی مہکی ہُوئی
اک سُہاگن کی سُرخ و سیاہ مہندیاں
اس کی نازُک کلائیوں میں چھن چھن چھنکتی ہوئی
کانچ کی نیلی، پیلی، ہری چُوڑیاں
اپنے ساجن کی ہر پیش قدمی پہ شرما کے خُود میں سمٹتا ہُوا
وصل کی خُوشبُؤں سے دہکتا ہوا
اُس کا نازُک بدن
اور بستر کی شِکنوں میں چھُپ چھُپ کے ہنستی ہوئی
سُرخ پھولوں کی جادُو اثر پتیاں
اور اس خواب کو سوچ کر رات دن
بین کرتا ہُوا
اک سِپاہی کی بیوی کا خالی صحن !!!
ثمینہ تبسُم

No comments:

Post a Comment