ہجر کے گُھنگھرو باندھے
وہ ایک ایسی دُھن پہ دیوانہ وار رقص کرتی ہے
جو کسی بانسری کی اُونچی لے
اور کچے گھڑے کی دھیمی تھاپ کے سنگم سے جنم لیتی ہے
تیشے کی نوک پہ تھرکتی
گھوڑوں کے سُموں تلے کُچلی جاتی
ریتلے طُوفانوں میں دم گُھٹ کے مرتی
اور بپھرے ہوئے پانیوں میں غرق ہوتی
ہر زنجیر کو توڑتی
ہر دیوار کو گراتی
ہر زندہ دل پہ سحر پُھونک دیتی ہے
اُس پہ اُنگلیاں اُٹھتی ہیں
اِلزام لگتے ہیں
سنگسار ہوتی ہے
عزت کے نام پہ قتل ہوتی ہے
وٹہ سٹہ میں برباد ہوتی ہے
بکریوں کی طرح بِکتی ہے
قُرآن اور جاےءنماز سے بیاہی جاتی ہے
نہ مداری تھکتے ہیں
نہ تماشائی
نہ کٹھ پُتلیاں
مُحبت کبھی نہیں مرتی
ثمینہ تبسُم
نہ تماشائی
نہ کٹھ پُتلیاں
مُحبت کبھی نہیں مرتی
ثمینہ تبسُم
No comments:
Post a Comment