Sunday, 24 August 2014

عمران خان !!!


سُنو
کل تک جو مٹی اپنے ماتھے سے لگا کر
اک نظر تُم آسمانوں کی طرف تکتے تھے
بازی جیت لیتے تھے
اُسی مٹی میں ہم نے اپنی نسلوں کا مُقدر بو دیا ہے
تو اب تُم ہو
یہ دھرتی ماں ہے
اللہ ہے
تو خالی ہاتھ مت آنا
کہ ہم سب نے
تُمہارے نام کی چادر کا جو جھنڈا بنایا ہے
اُسے ہم نے نئی صُبح کے سُورج سے سجانا ہے
قدم آگے بڑھانا تُم
کہ خالی ہاتھ مت آنا
کہ خالی ہاتھ مت انا
ثمینہ تبسُم

Saturday, 23 August 2014

فیس بُک فیملی !!!



کسی کو کیا بتانا ہے
کسی سے کیا چُھپانا ہے
کسی نے کس کو کیا لکھا
کسی نے کیوں نہیں لکھا

ارے بابا !!!
یہ سب کُچھ سوچنا میرے لیئے ممکن نہیں ہے
میرے بس میں تو بس یہ ہے...
مُحبت سے مُحبت کے لیئے سوچوں
دلوں کو جوڑ کے رکھنا
مُحبت ہے
مُحبت ہے
کسی رُوٹھے کو منٹوں میں منا لینا
مُحبت ہے
مُحبت ہے
دُکھی چہروں کو گہری مُسکراہٹ سے سجا دینا
مُحبت ہے
مُحبت ہے
کُھلے دل سے مُحبت کے لیئے جینا بھی آفاقی مُحبت ہے
یہی ہے جو میں کر سکتی ہوں
کرنا چاہتی ہوں
مُحبت ہوں
مُحبت ہوں

ثمینہ تبسُم

دھرتی ماں !!!


ہم حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاضر ہیں
جب بات ہماری جاں کی تھی
خاموش رہے
اب بات تیری عزت کی ہے
اب خاموشی اک لعنت ہے
اے ماں
تیرے آنچل کی حرمت بہ...
جان بھی جاے
دے دیں گے
ہم تن من دھن سے حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاظر ہیں
ثمینہ تبسم

وٹس اپ اللہ جی ???



یہ جو آپ ہر ُکچھ دن کے بعد
میری زندگی میں
ایک نیا ڈرامہ شُروع کر دیتے ہو
آخر آپ کیا چاہتے ہو ?

آپ کی کہانی
آپ کا ہیرو
آپ کی ہیروئین...
دونوں کے مسلئے
ظالم سماج
بہت مزہ آتا ہے ناں آپ کو اس سب کنفیوژن سے ?
مُجھے بتایئے ناں
اب یہ میرا جھلا سا مجنوں
میرا سوہنا
میرا رانجھا
میرا سُوئیٹ ہارٹ
میری جان
کیا کروں گی میں اُس کا???
مُجھے مسلہ کوئی نہیں ہے
مگر پھر بھی
ذرا کُھل کے بتائیے
بہت مزہ آتا ہے ناں آپ کو مُجھے اس چکر میں پھنسا کے??
جُونہی مُجھے لگتا ہے کہ اب سب ٹھیک ہے
آپ ٹھک سے صفحہ پلٹ دیتے ہو کہانی کا
آللہ جی
آخر آپ کیا چاہتے ہو???

ثمینہ تبُسم

ماڈرن ہیر !!!



تُم جو ہو نا
بڑے خراب ہو تُم
ایم سی، پی سی تُمہاری باتوں سے
بائی گوڈ آئی ہیو کرش اون یُو

ماڈرن ہیر
ماڈرن رانجھا
پیار کی سیر گاہ میں آکر...
ساری ڈیوائسسز کے بُوتے پہ
خُفیہ نمبروں سے گُوندھ کر دونوں
روز کھاتے ہیں پیار کی چُوری
فیس بُک فیملی کے ریوڑ کو
عشق کے کھیت میں چراتے ہیں
سارے ہیکرز.... ماڈرن قیدُو
اور سب ایپ .... ماڈرن کھیڑے
کہنا
سُننا
دیکھانا
سب کرنا
مست ہیں بانسری بجاتے ہیں

دیکھا بس اس لیئے میں کہتی ہوں
ایم سی , پی سی
تُمہاری باتوں نے
ساری تاریں میری ملا دی ہیں

ثمینہ تبُسم

سالگرہ !!!

 


میں اپنی ماں کی چوتھی بیٹی ہوں
مُجھے مانگا نہیں گیا
مُجھے چاہا نہیں گیا
میری سالگرہ کبھی نہیں منائی گئی
اور یہ دُکھ میری ذات کا حصہ بن گیا

اب ہر سال
جب میری بیٹی مُجھے گلے لگا کر کہتی ہے...
" امی ۔۔۔ مُجھے آپ پہ فخر ہے ۔۔۔ میں آپ سے بہت مُحبت کرتی ہوں "
تو میرے دل پہ گرتے آنسُو
ایک شرمیلی سی مُسکراہٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں
میری آنکھیں جگمگا اُٹھتی ہیں
اور میں خُود سے کہتی ہوں
" سالگرہ مُبارک ہو "

ثمینہ تبسُم

رُوحانی خُودکُشی !!!



تُمہیں مُجھ سے مُحبت ہے
مُجھے تُم سے مُحبت ہے
یہی سچ ہے
یہی حق ہے
مُحبت سے بڑا رشتہ نہیں ہے

تو جان_ جاں
ہمارے درمیاں جو ہے...
اُسے دُنیا کی نظروں سے نہیں دیکھو
کہ دُنیا تو خُدا کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھی ہے صدیوں سے
وہ مذہب کی پٹاری سے
کوئی فتوی‘ نکالے گی
ہمیں سنگسار کر دے گی

" مُحبت پتھروں کی بارشوں سے مر نہیں جاتی "

ابھی بھی وقت ہے جاناں
چلو ۔۔۔ واپس پلٹ جائیں
تُم اپنے سرد کمرے میں اکیلے بیٹھ کے رونا
میں اپنی آگ میں جل جل کے خُود کو راکھ کر لُوں گی

" رُوحانی خُود کُشی کا ذمہ اس دُنیا کے سر ہو گا "

ہمارے درمیاں جو ہے
وہ مُردہ قبرکا کُتبہ نہیں ہے
وہ اک زندہ حقیقت ہے
اُسے دُنیا کی نظروں سے نہیں دیکھو
کہ دُنیا تو ۔۔۔۔۔۔۔

ثمینہ تبسُم

Monday, 11 August 2014

مُحبتی !!!



میں وہ راز ہوں
میں وہ آگ ہوں
میں وہ داغ ہوں 
میرے بھولییا

جو نہ کُھل سکا
جو نہ بُجھ سکا
جو نہ دُھل سکا
میرے کملییا

میں خیال ہوں
میں سراب ہوں
میں شباب ہوں
میرے رانجھیا

نہ سمٹ سکوں
نہ ہی مل سکوں
نہ ٹھہر سکوں
میرے ہیریئیا

مُجھے اپنا کر
مُجھے پیار کر
مُجھے دل میں رکھ
میرے سوہنییا

میں مُحبتی
میں مُحبتی
میں مُحبتی
میرے جوگیا

ثمینہ تبسُم

دھرتی ماں !!!


ہم حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاظر ہیں
جب بات ہماری جاں کی تھی
خاموش رہے
اب بات تیری عزت کی ہے
اب خاموشی اک لعنت ہے
اے ماں 
تیرے آنچل کی حرمت بہ
جان بھی جاے
دے دیں گے
ہم تن من دھن سے حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاظر ہیں
ثمینہ تبسم

نقارہ !!!



کیا اندھے ہو ?
کیا گونگے ہو ?
کیا لنگڑے لُولے رہ کے جینا چاہتے ہو ?
جب نہیں تو مُردہ رُوح کیوں ہو ?
جب نہیں تو بولو زندہ ہوں
جب نہیں تو سر کو اُٹھاو اب
جب نہیں تو قدم بڑھاو اب
تو کہہ دو اک آواز میں سب
اب اور نہیں
اب بس
اب بس
اب بس
ثمینہ تبسم

Saturday, 2 August 2014

عُمر قید !!!



پردیس میں رہنے والو

جب بارہ بارہ گھنٹے کی شفٹیں تُمہیں مفلُوج کر دیتی ہیں
جب بازاری کھانا کھاتے ہُوئے گھونٹ گھونٹ آنسُو پیتے ہو
جب ہر شام تنہائی کی جادر اوڑھے چُپ چاپ بیٹھے ٹی وی کو گھورتے ہو
اور جب اپنے بدن کی آگ اور پانی میں خُود ہی جلتے پگھلتے ہو
کبھی یہ سوچا ہے ؟
کہ وہ عورت جسے تُم دیس میں چھوڑ آئے ہو
اُس پہ کیا گُزرتی ہو گی ؟

ثمینہ تبسُم

مُحبت کا سفر !!!



آؤ 
ہم اپنی ذات کی قید سے آزاد ہو کر
روشنی کی تلاش میں چلیں
راستہ طویل سہی
دُشوار سہی
تاریک سہی
مگر مُجھے یقین ہے کہ ایک دن
ہم بند سوچوں کی اندھی سُرنگ سے باہر نکل کر
اُن آسُودہ وادیوں میں اُتریں گے
جہاں اُمید کے جُگنُو
اور خُوشی کی تتلیاں
ہمارا استقبال کریں گی
جیاں صرف مُحبت کا راج ہو گا
آؤ
ہم محدُود سے لامحدُود ہو جائیں
ہم انسان بن جائیں 

ثمینہ تبسُم

پردیس !!!



مانا دُور بہت ہو رہتے
مانا تُم کو کام بہت ہے
مانا ایس ایم ایس کرو گے
مانا فُون پہ بات کرو گے
مانا کہ وٹس ایپ پہ فوٹو بھی بھیجو گے
پر دیکھو نہ
اج کی رات بھی میرے بیڈ پہ ایک سرہانہ
چُپ چُپ سا تنہا لیٹا ہے
تنہائی کو سہہ نئیں سکتی
اور کبھی میں کُچھ نہیں کہتی
آج مگر تُم 
آجاو ناں
مر جانی کو گلے لگا کے 
چاند مُبارک کہہ جاؤ ناں 
آ جاؤ ناں

ثمینہ تبسُم

بند مٹھی!!!



وہی
ویسا ہی
جیسے تھا
سبھی کُچھ ہے

بڑے بڑے بٹنوں والا بابا آدم کے زمانے کا ریڈیو
پلنگ کے سرہانے کی طرف تہہ کر کے رکھی ہوئی جائے نماز
مدینہ شریف کی ہرے دانوں والی تسبح اور سفید ٹوپی
موٹے موٹے شیشوں والی نظر کی عینک
ایک کٹوری میں رکھی ہوئی بتیسی
نیلی ٹوکری
اور ٹوکری میں رکھی ہوئی ہومیو پیتھک کی دوائیاں
دیسی چُورن کی کئی پُڑیاں
کُھلے اور بند لفافے
اور بڑی چھوٹی ڈبیاں 
انگیٹھی پہ ترتیب سے رکھے ہوئےضیائے حرم کے درجنوں رسالے
الماری میں لٹکی ہوئی رنگین ٹائیاں
نئے اور پُرانے مفلر
سویٹر اور اُونی ٹوپیاں
موزے اور جُوتے
چپل اور کیھڑیاں
میل خُوردہ کالروں والی شرٹیں
بوسکی کے کُرتے اور لٹھے کی شلواریں
ایک ہلتی ہوئی کُرسی
اور درازوں والی بھاری میز

سبھی کُچھ ہے
ابھی کُچھ دیر پہلے تک
یہ چیزیں سانس لیتی تھیں
یہ اک دُوجے پہ ہنستی
چھینکتی
اور کھانستی تھیں

بس 
ابھی کُچھ دیر پہلے
اُس نے سب چیزوں کی رُوح
اپنی برف ہوتی ہوئی
جُھریوں بھری مُٹھی میں بند کر لی

ابھی کُچھ دیر پہلے تک
اس کمرے میں
اُس کے ساتھ ہر چیز زندہ تھی

ثمینہ تبسُم

چور!!!



بظاہر سب ٹھیک ہے
وہی خُوبصورتی سے بنے بال
نفاست سے کٹے ناخُن
اور خُوش لباسی

کھانا پینا
واک پہ جانا
کتابیں پڑھنا
ٹی وی دیکھنا 
بات سُن کے سمجھنا اور مُسکرا دینا

سبھی کُچھ ہے
مگر اُس کی ویران آنکھیں دیکھی نہیں جاتیں
اگرچہ وہ ہے 
مگر اسے نہیں معلوم کہ وہ کون ہے

اُس کی یادوں کا خزانہ سفاک الزائمرز نے چوری کر لیا ہے
اور اُس چور کا کوئی کُچھ نہیں بگاڑ سکتا 

ثمینہ تبسُم

نیا چاند !!!


 
وہ بھی وقت تھا
جب کائنات خاموش تھی
سُنسان تھی
اُداس تھی
راتیں لمبی اور تاریک تھیں

پھر تُم نے درشن دیئے
دھیرے دھیرے
چاندنی چٹکنے لگی
تارے چمکنے لگے
کہکشاں پُورے دنوں سے تھی

کہ اچانک
تُم نے کروٹ بدلی
کسی اور آنگن میں جا اُترے
راتوں کو گرہن لگ گیا

لیکن اب
میں سوگ نہیں مناتی
نئے چاند کا انتظار کرتی ہوں
 ثمینہ تبسُم