Saturday, 2 August 2014

بند مٹھی!!!



وہی
ویسا ہی
جیسے تھا
سبھی کُچھ ہے

بڑے بڑے بٹنوں والا بابا آدم کے زمانے کا ریڈیو
پلنگ کے سرہانے کی طرف تہہ کر کے رکھی ہوئی جائے نماز
مدینہ شریف کی ہرے دانوں والی تسبح اور سفید ٹوپی
موٹے موٹے شیشوں والی نظر کی عینک
ایک کٹوری میں رکھی ہوئی بتیسی
نیلی ٹوکری
اور ٹوکری میں رکھی ہوئی ہومیو پیتھک کی دوائیاں
دیسی چُورن کی کئی پُڑیاں
کُھلے اور بند لفافے
اور بڑی چھوٹی ڈبیاں 
انگیٹھی پہ ترتیب سے رکھے ہوئےضیائے حرم کے درجنوں رسالے
الماری میں لٹکی ہوئی رنگین ٹائیاں
نئے اور پُرانے مفلر
سویٹر اور اُونی ٹوپیاں
موزے اور جُوتے
چپل اور کیھڑیاں
میل خُوردہ کالروں والی شرٹیں
بوسکی کے کُرتے اور لٹھے کی شلواریں
ایک ہلتی ہوئی کُرسی
اور درازوں والی بھاری میز

سبھی کُچھ ہے
ابھی کُچھ دیر پہلے تک
یہ چیزیں سانس لیتی تھیں
یہ اک دُوجے پہ ہنستی
چھینکتی
اور کھانستی تھیں

بس 
ابھی کُچھ دیر پہلے
اُس نے سب چیزوں کی رُوح
اپنی برف ہوتی ہوئی
جُھریوں بھری مُٹھی میں بند کر لی

ابھی کُچھ دیر پہلے تک
اس کمرے میں
اُس کے ساتھ ہر چیز زندہ تھی

ثمینہ تبسُم

No comments:

Post a Comment