Tuesday, 11 November 2014

لگیاں دی پیڑ


 جب دل چاکی عشق سمُندر ڈُب جائے
تب ساری دُنیا لُوںڑیں لُوںڑیں لگدی اے
فِر اکھاں دے وچ چانڑ جوت جگاندا اے
فِر مٹھی مٹھی پیڑ کلیجہ ساڑدی اے
فِر پتہ پتہ رانجھا رانجھا کُوکدا اے
فِر جیندا جاگدا بندا مُک مِٹ جاندا اے
رُل جاندا اے
پر ایس رُلے جاون دا
چَس بڑا ای آوندا اے

جب دل چاکی۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ تبسُم

طلسم


 اور
یہ میں ہوں
کہ ہے کوئ جادُو گری

اور
یہ تُم ہو
کہ ہے اسمِ اعظم کوئی
لذتِ عشق سے بڑھ کے کُچھ بھی نہیں
بس یہی
بس یہی
بس یہی
ثمینہ تبسُم

عین عشق



ڈاہڈے دے سنگ
ڈاہڈی لگی
ڈاہڈی میں کُرلاواں

حال او کھیڈے
من ویڑے اچ
تِل تِل مر دی جاواں
ٴچاک تے بیٹھا
وَن سوّنے
باوے کَڑدا جائے
دُنیا دی پَٹھی وچ سُٹے
پَارس وانگ پکائے
پَک جاوے تے توڑ بَڈاوا
چاک تے فیر چڑھائے
کِھڑ کِھڑ ہسّدا جائے
.....
کِھڑ کِھڑ ہسّدا جائے
ثمینہ تبسُم

لیلتُہ المُحبت !!!


 چاندنی کے رُوپہلی آنچل میں اپنا جگمگاتا مُکھڑا چھُپائے
چودھویں کا مُکمل چاند
کینڈل لائیٹ ڈنر
گُلابوں اور موتیئے کی سحر انگیز خُوشبو
جادُوئی موسیقی
بارش کی بُوندوں کا ہلکا سا ترنُم
سائیوں کی طرح چلتے ویٹرز
کانٹوں اور چمچوں کی ہلکی سی کھنکھناہٹ
کھانے اور ریڈوائن کی اشتہا انگیز مہک
سیاہ سُوٹ سے اُٹھتا جذبات کا اک خاموش طُوفان
سگرٹ اور قیمتی پرفیوُم کا اُس کی طرف مائل کرتا ہوا جادُو
ڈانس کی دعوت دیتا
نفاست سے کٹے ناخُونوں اور مضبُوط اُنگلیوں سے مرصع
ایک نرم، گرم اور سانولا ہاتھ
ڈانس فلور پہ تھرکتے ہوئے قدموں میں در آتی قُرب کی خواہش
کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے
مہکتے خواب
نشیلی آنکھیں
اور بےقرار خواہش
صُبح کی سُرمئی چادر کو
دھیرے دھیرے اپنے چہرے سے سرکاتا ہُوا بے صبر سُورج
باتھ رُوم میں بےترتیبی سے گرے پڑے
کُچھ بڑے ، کُچھ چھوٹے تولیئے
بیڈ پہ یہاں وہاں
آڑے تِرچھے پڑے
چُرمُرائے ہوئے تکئیے
بستر کی بےشُمار شِکنوں سے جھانکتی ہوئی
وصل کی سیراب خواہش
نائیٹ ٹیبل پہ رکھے کارڈ پہ گُنگُناتا ہُوا
ہنی مُون سُوئیٹ !!!
ثمینہ تبسُم

جادُو گرنی


 ہجر کے گُھنگھرو باندھے
وہ ایک ایسی دُھن پہ دیوانہ وار رقص کرتی ہے
جو کسی بانسری کی اُونچی لے
اور کچے گھڑے کی دھیمی تھاپ کے سنگم سے جنم لیتی ہے
تیشے کی نوک پہ تھرکتی
گھوڑوں کے سُموں تلے کُچلی جاتی
ریتلے طُوفانوں میں دم گُھٹ کے مرتی
اور بپھرے ہوئے پانیوں میں غرق ہوتی
ہر زنجیر کو توڑتی
ہر دیوار کو گراتی
ہر زندہ دل پہ سحر پُھونک دیتی ہے
اُس پہ اُنگلیاں اُٹھتی ہیں
اِلزام لگتے ہیں
سنگسار ہوتی ہے
عزت کے نام پہ قتل ہوتی ہے
وٹہ سٹہ میں برباد ہوتی ہے
بکریوں کی طرح بِکتی ہے
قُرآن اور جاےءنماز سے بیاہی جاتی ہے

نہ مداری تھکتے ہیں
نہ تماشائی
نہ کٹھ پُتلیاں
مُحبت کبھی نہیں مرتی
ثمینہ تبسُم

تشبہہ !!!


 میں اکثر سوچتی
چڑتی تھی
جب لوگوں سے ملتی تھی
میری امی یہ کہتی تھیں
کہ بچے پیڑ پہ
پودوں پہ اُگتے ہیں
تو پھر میں خُوب ہنستی تھی

کبھی ابُو
کبھی امی
کبھی انکل
کوئی آنٹی
کسی جنگل میں جا کر کوئی سا بچہ اُٹھا لاتے
تو میں حیران ہوتی تھی
" ہمارے باغ میں جو سبزیاں، پھل پھول اُگتے ہیں
وہ سب ننگے کیوں ہوتے ہیں؟"
یا یہ کہ
" یہ جو انکل ہیں، یہ آخر کس قسم کے پیڑ سے توڑے گئے تھے؟"
" یہ آنٹی کس طرح کی بیل پہ لٹکی ہوئی تھیں؟"
میرے چاروں طرف
کدّو ، کریلے ، اور بیگن تھے
کوئی لوکی ، کوئی بھنڈی ، کوئی توری ، کوئی گوبھی
کوئی پھیکا، کوئی کڑوا ، کوئی چپکُو ، کوئی بھدّا
سوالوں سے بھری آنکھیں
میرے ذہنی اُفق پہ اس طرح کا پینٹ کرتی تھیں
کہ میں لوگوں سے ڈرنے لگ گئی تھی
ابھی تک
سبزیاں کھانا
مُجھے اچھا نہیں لگتا !!!
ثمینہ تبسُم

جہنُم !!!


 تُم بھوکے رہو
پیاسے رہو
ترستے رہو
تاکہ
تُمہیں اندازہ ہو
اُس بھوک کا
اُس پیاس کا
اُس طلب کا
جو میری رُوح محسوس کرتی ہے
جب میں بڑی بڑی یُونیورسٹیاں دیکھتی ہوں
جب میں لائیبریری میں جا کر گُم سُم ہو جاتی ہوں
جب میں اپنی کم علمی پہ تڑپتی ہوں
مُجھ سے پُوچھو
محرومی کیا ہوتی ہے

ثمینہ تبسُم

کب آؤ گے ؟


 بے خُودی
مستیاں
خُوشبُوئیں لے کے دل میں دھڑکتا ہُوا
ایک آسُودہ خواہش کا مہکا بدن

نرم ہاتھوں پہ دُلہن سی مہکی ہُوئی
اک سُہاگن کی سُرخ و سیاہ مہندیاں
اس کی نازُک کلائیوں میں چھن چھن چھنکتی ہوئی
کانچ کی نیلی، پیلی، ہری چُوڑیاں
اپنے ساجن کی ہر پیش قدمی پہ شرما کے خُود میں سمٹتا ہُوا
وصل کی خُوشبُؤں سے دہکتا ہوا
اُس کا نازُک بدن
اور بستر کی شِکنوں میں چھُپ چھُپ کے ہنستی ہوئی
سُرخ پھولوں کی جادُو اثر پتیاں
اور اس خواب کو سوچ کر رات دن
بین کرتا ہُوا
اک سِپاہی کی بیوی کا خالی صحن !!!
ثمینہ تبسُم

جہالت !!!


 مُجھے بھی شرم آتی ہے
مگر کہنا ہی پڑتا ہے
کہ چُپ رہ کر میں جو کُچھ دیکھتی سُنتی ہوں
اُس کو سہہ نہیں سکتی

میں بیٹی ہوں
بہن بھی ہوں
میں اک ماں ہوں
میرے لوگوں کا کہنا ہے
مُجھے یہ چاہیئے کہ میں
نظر نیچی کئیے
چُپ کر کے
ہر اک بات کو سُن کر
دُوپٹہ مُنہ پہ رکھ لوں
دانت میں اُنگلی دبا کر شرم کے مارے
اندھیری کوٹھری میں جا چُھپوں
اور جسم کے حیرت کدے میں
دھیرے دھیرے کھل رہی
خواہش کی کلیاں چُن کے اپنے آپ کو سیراب کر لوں
جہالت کے یہ کیڑے جو میرے نازُک بدن کو کھا رہے ہیں
جو امراضِ پوشیدہ میرے اندر پل رہے ہیں
اُنھیں اگلی نسل میں مُنتقل کر کے
اندھیری کوٹھری میں جان دے دُوں
میں انساں ہوں
میں جسمانی مریضہ ہوں
مُجھے تعویز گنڈوں کی
یا جادُو منتروں کی آگ میں جھونکو گے
سب برباد کر دو گے
مُجھے صدیاں لگی ہیں یہ اندھری کوٹھری مسمار کرنے میں
تو اب چُپ چاپ سر پہ مشرقیت کا سُنہرا تاج پہنے بیٹھنا مُمکن نہیں ہے
ثمینہ تبسُم

ڈپریشن !!!


 آج مُجھے یوُں لگا
جیسے آیئنے کے سامنے کھڑی
میں خُود کو پہچاننے سے قاصر ہوں
وہ میرے سامنے کھڑی تھی
ہونٹوں پہ ایک خُوبصورت مُسکراہٹ سجائے
آنکھوں میں بے پناہ مُحبت لئے
اُس نے بہت شوق سے مُجھے پُکارا
اور دونوں باہیں پھیلا کر اپنے سینے سے لگا لیا
میں پتھر کی طرح سرد تھی
اُس کا لمس اجنبی نہیں تھا
وہ گرم جوشی بھی جعلی نہیں تھی
اور اچانک مُجھے اُسکا نام یاد آگیا
جیرالڈ سٹریٹ پہ واقع وہ اورگنائزیشن بھی
جہاں ایک کورس کے سلسلے میں، میں اُس کے ساتھ تھی
لاھور تکہ ہاؤس کا کھانا بھی
اور اُس کے بعد
ایک گہری تاریکی
جب اُس نے میری سردمہری محسوس کی اور مُجھے خُود سے الگ کیا
تو اُس کی آنکھوں میں حیرت تھی
اُلجھن تھی
اور بہت سارے سوال
مگر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا
صرف یہ یاد ہے
کہ اُس وقت
نروس بریک ڈاؤن کے بعد میں شدید ڈپریشن سے گُزر رہی تھی
صرف ایک سرٹیفیکیٹ یے
جو اُس کورس کی یاد دلاتا ہے جس میں وہ میرے ساتھ تھی
میری زندگی کا پُورا ایک سال ؟
وہ سب میں کیسے بھول گئی ؟
مُجھے نہیں پتہ
اب میرے پاس بہت سے سوال ہیں
لیکن سمجھ نہیں آتی بات کہاں سے شروع کروں ؟؟؟
ثمینہ تبسُم

بولنے والی !!!


 وہ کہتے ھیں
کہ جو عورت
بڑی بن ٹھن کے تصویریں کھچاتی ھے
یا اپنی *وال پہ اُن کو لگاتی ھے
وہ مردوں کو پھنساتی ھے

“ تو کیا تُم سارے پھنستے جا رھے ھو ؟“
میرے لوگو
مُجھے مذہب
یا اپنے سڑ رھے رسموں رواجوں کے
کسی بازار میں لاکر کھڑا کر دو
مُجھے کُچھ بھی کہو
الزام دو
چاھو
سراھو
گالیاں بک دو
مٰگر میں خُوش
بہت خُوش ھوں
میں اپنی ذات سے آگے
بہت آگے نکل کر سوچتی ھوں
مُجھے تُم سے مُحبت ہے
کہ تُم سچ بولنے والی کسی عورت سے اتنا پیار کرتے ھو
کہ چاھو بھی
تو اب ھرگز
نظر انداز کرنے کی
کوئی کوشش نہیں کرتے
*فیس بُک
ثمینہ تبسُم

فانی !!!


 مُجھے
میرے نہ ہونے کا خوف
اور اس دُنیا کے
میریے بغیر بھی
چلتے رہنے کا اندیشہ
سونے نہیں دیتا

کیا ہو گا آخِر ؟
میرے اس اتنے جتنوں سے کمائے ہوئے پیسے کا
میری جائیداد
میری کاریں
میری کوٹھیاں
کیا اس گھٹیا اور دو کوڑی کی دُنیا میں رہ جایئں گی؟
میرا یہ خُوبصورت
فولاد جیسا جسم
میری طاقت
میری جوانی
سب اک دو گز کی قبر میں مٹی ہو جائے گا ؟؟
نہیں نہیں
ہرگز نہیں
مُجھے نہیں مرنا
کبھی نہیں مرنا
ثمینہ تبسُم

Tuesday, 23 September 2014

نا جائز !!!


بہت اُلجھی ہوئی ہوں
بہت سہمی ہوئی ہوں
میری سوچوں کا ملبہ خُود مُجھی پہ گر رہا ہے
سوالوں کی جو گٹھری اس جواں بچی کے پھولے پیٹ میں پلتی ہے
اُس کی کرب سے پھٹتی ہوئی آنکھون سے دکھتی ہے
اذیت کے تشنُج سے وہ خُوں آلود ناخُونوں سے خُود کو مارے دیتی ہے
کوئی ایسا نہیں جو اُس کو سینے سے لگا کے تھوڑی ڈھارس دے
کوئی اس سے کہے کہ چند ہی گھنٹوں میں وہ اس درد سے آزاد ہو گی
مگر کوئی بھی اُس سے کُچھ نہیں کہتا
نہ اُس کے پاس رُکتا ہے
سبھی کترا کے
اپنے ناک منُہ پہ ہاتھ رکھ کے یوں گُزرتے ہیں
کہ جیسے گندگی کی پوٹ
وہ کیڑوں بھری لڑکی اُنھیں برباد کر دے گی
" طوائف ہے "
یہ سرگوشی کلینک کے فرش پہ سر پٹکتی بین کرتی ہے
تو یہ بدحال اور بدذات چھوری آج سے کُچھ ماہ پہلے تک
کسی بستر پہ چادر بن کے بچھتی تھی
یہاں اس حال میں ہے کہ
زمیں پھٹتی ہے نہ یہ آسماں گرتا ہے اس چنڈال چھوری پہ
یہ بچہ اس جہاں میں آکے کسطرح سے خُود کو یہ بتائے گا
کہ وہ ناپاک ہے
گندہ ہے
ناجائز غلاظت ہے
نہ اُس کا باپ ہے کوئی
نہ اُس کی ماں کا شوہر ہے
کسی کو اُس سے
اُس کی ماں سے ہمدردی نہیں ہے
تو اب میں سر کو تھامے سوچتی ہوں
اگر یوم _ حشر ہر فرد اپنی ماں کے پہلے نام کی تختی لئے جاگے گا تو
یہ کس کا بچہ ہے ؟
یہ جائز یا نا جائز ہے
یہ سارے فیصلے اک ماں کرے گی؟
مگر یہ بات دُنیا کی سمجھ مین کیوں نہیں آتی؟
بہت اُلجھی ہوئی ہوں
میری سوچوں کا ملبہ خُود مُجھی پہ گر رہا ہے
ثمینہ تبسُم

مجازی خُدا !!!


میرے کُچھ کہنے سے پہلے
تُم مُجھے سُنتے ہو
کُچھ مانگنے سے پہلے 
نوازتے ہو
میری تنہائی میں
میرا سہارا ھو
اور ہجُوم میں
میرے واحد ساتھی ہو
تُمہاری ایک نظر
مُجھے مالا مال کردیتی ہے
تُمہارا لمس
مُجھ میں حرف کُن پھونک دیتا ہے
مُجھے دیکھ کر
تُمہاری آنکھیں شدت جذبات سے بھیگ جاتی ہیں
اور یہ نمی میری رُوح کو سیراب رکھتی ہے
تُم میرے ہونے کی وجہ ہو
میری جان
میرے لیئے تُم مُحبت کے خُدا ہو
اور میں مُحبت میں بھی توحید کی قائل ہوں
ثمینہ تبسُم

معذرت کے ساتھ !!!


میں مُعافی چاہتی ہوں پر
اصل مسلئہ نہ غُربت ہے
جہالت ہے
نُمائش ہے
کرپشن ہے
اصل مسلئہ ہمی خُود ہیں
ہم اپنے نفس کے اندھے کنویئں میں قید مینڈک ہیں
زبانیں تو بہت چلتی ہیں
باتیں خُوب بنتی ہیں
مگر جب وقت آتا ہے دیواروں کے گرانے کا
تو اپنی ذات سے باہر ہمیں کُچھ بھی نہیں دکھتا
کہ شوہ بازی کے جس رستے پہ اب ہم چل پڑے ہیں
وہاں پہ ڈگریاں ہم سے کرپشن ہی کراتی ہیں
کوئی قائد ، کوئی اقبال کی تصویر کے آگے کھڑا ہو کر
ہمارا اصل خدمت گار ہونے کے بہت نعرے لگاتا ہے
اصل میں وہ مداری ہے
ہمیں روٹی کے اک ٹُکڑے یا چادر ، چار دیواری کی لے پہ یوں نچاتا ہے
کہ جیسے ڈُگڈُگی کی لے پہ بندر جُھوم جاتے ہیں
تو اپنی مستیوں میں مست ہم وہ قوم ہیں جس کو
ہمیشہ یاد رکھنا ہے
ہم اپنے گھر میں جو کُچھ ہیں
ہمارے پاس جو کُچھ ہے
وہ پاکستان کا بخشا ہوا ہے
کبھی فُرصت ملے تو سوچئیے گا
کہ پاکستان کو ہم نے ۔۔۔۔۔ دیا کیا ہے ؟
ثمینہ تبسُم

میرے لوگو !!!


خُدا کی مہربانی ہے
میرے رب نے مُجھے بےحد نوازا ہے
یہاں پردیس میں مُجھ کو ہر اک نعمت مُیسر ہے
مگر یہ دل بہت بے چین رہتا ہے
سسکتا ہے
مچلتا ہے
اُنھی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرنے کو
جہاں میں نے میرے بچپن جوانی کے سُنہرے دن گُزارے تھے
وہاں کی بارشوں میں بھیگ کر بیمار پڑنے اور بہتی ناک چادر میں سُڑکنے کو
وہاں ہر عُمر اور سائز کے بچوں سے بھرے صحنوں میں اُن کا شور سُننے کو
وہاں باورچی خانوں سے نکلتی خُوشبوُؤں میں سانس لینے کو
وہاں پہ کوسنے دیتی ہوئی ماؤں پہ باپوں کے بگڑنے کا بہت دلچسپ منظر دیکھنے اور اُن پہ ہنسنے کو
وہاں فُرصت سے بیٹھے اُونگتے بُوڑھوں سے آُن کی نوجوانی میں ہوئے قصوں کے سُننے کو
بڑے چھوٹوں سے بالکل مُفت ملتے مشورے بڑھ بڑھ کے لینے کو
بہت ہی دل مچلتا ہے
تڑپتا ہے
سسکتا ہے
میرے لوگو
میں جیسی ہوں
جہاں بھی ہوں
تُمہی سے ہوں
میں تُم سے پیار کرتی ہوں
ثمینہ تبسُم

آج کل ان اسلام آباد !!!


" سُنتے ہو جی کیا کہتی ہُوں ؟ "
" کیا کہتی ہو ؟ "
" کب آؤ گے ؟ "
" جب تُم چاہو "
" سچ کہتے ہو ؟ "
" سچ کہتا ہوں "
" مت جاؤ ناں "
" لو نہیں جاتا "
" فُون کرو کہ دھرنے پہ ہو ۔۔۔ آ نہیں سکتے "
" کر دیتا ہوں ۔۔۔۔ تُم تو میری جان ہو جانم ۔۔۔ آجاؤ ناں "
" چھوڑو بھی یہ چُوما چاٹی ۔۔۔۔ اس سے پہلے بتی جائے کپڑے دھو لو "
" آلو گوشت بنا کے تُم بھی آجانا ریڈ زون کے اندر "
" پہلے ہم تقریر سُنیں گے ۔۔۔ نعرے بازی بھی کر لیں گے "
" پھر کل کس نے کیا کرنا ہے ۔۔۔ ڈسکس کر کے گھر آئیں گے "
" سُنتے ہو جی ۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ تبسُم

Saturday, 13 September 2014

عمران خان !!!


سُنو
کل تک جو مٹی اپنے ماتھے سے لگا کر
اک نظر تُم آسمانوں کی طرف تکتے تھے
بازی جیت لیتے تھے
اُسی مٹی میں ہم نے اپنی نسلوں کا مُقدر بو دیا ہے
تو اب تُم ہو
یہ دھرتی ماں ہے
اللہ ہے
تو خالی ہاتھ مت آنا
کہ ہم سب نے
تُمہارے نام کی چادر کا جو جھنڈا بنایا ہے
اُسے ہم نے نئی صُبح کے سُورج سے سجانا ہے
قدم آگے بڑھانا تُم
کہ خالی ہاتھ مت آنا
کہ خالی ہاتھ مت انا
ثمینہ تبسُم

پاکستان زندہ باد !!!



ہم جو بھی ہیں
ہم جیسے ہیں
ہم سارے پاکستانی ہیں
آپس کے جھگڑے ایک طرف
سب مسلئے مسائل ایک طرف
جب بات ہو پاکستان کی تو
تن من دھن سے سب ایک طرف
ہم کل بھی تھے
ہم آج بھی ہیں
باقی سب آتے جاتے ہیں
خدمت گاروں کو ہم نے اب سوچ سمجھ کے چُننا ہے
اگلی نسلوں کے لیئے نیا اک پاکستان بنانا ہے
ہم پاکستان کے دم سے ہیں
ہم جو بھی ہیں
ہم جیسے ہیں
ہم سارے پاکستانی ہیں
ثمینہ تبسُم

مُکافات عمل !!!


عمران خان
ذرا ٹھہرو
اب اس سے بیشتر کہ تُم فتح کا تاج پہنو
اب اس سے بیشتر کہ تُم بھی تکبر کے کسی رستے پہ چل نکلو
اور اس سے بیشتر کہ تُم بھُول جاؤ کہ تُم ہمارے خدمت گار ہو
ایک بار خُود سے پُوچھ لو
کہ تُم سے بیشتر جو لوگ تھے
وہ کون تھے ?
کہاں سے آئے تھے ?
اور اب کہاں ہیں ?
اور خُود کو یاد دلاؤ
وہ سب نعرے
جو بےشُمار مُردہ ہونٹ مرنے سے ذرا پہلے لگاتے تھے
وہ سب آنکھیں
جو مٹی میں دفن ہو کے بھی زندہ ہیں
وہ سب وعدے
جو وقت کی سُولیوں پہ لٹکے تُمہاری راہ تکتے ہیں
اور یاد رکھنا
کہ خُدا سب سے بڑا مُنصف ہے
ثمینہ تبسُم

پریگننٹ !!!


سوتے سوتے جاگ رہی ہوں
جاگی جاگی سوئی پڑی ہوں
روتے روتے ہنس پڑتی ہوں
ہنستے ہنستے ڈر جاتی ہوں
بس نہیں چلتا
لیکن بھر پھی
دل کرتا ہے
اپنی ناف سے جھانک کے دیکھوں
آخر میرا
سوہنا موہنا
گُوچُو مُوچُو
کیا کرتا ہے ؟
جب بھی اُس کی ننھی کوہنی یا بھر گُھٹنا
میری پسلی میں چُبھتا ہے
دل دُکھتا ہے
میرا بجہ کیا چاہتا ہے ؟
بھُوک لگی ہے ؟
چھی چھی کی ہے ؟
گھُپ اندھیرے میں ڈرتا ہے ؟
اتنی تنگ جگہ پہ اُس کا دم گھُٹتا ہے ؟
آخر کیا ہے ؟
بُوجھتی ہوں
باتیں کرتا ہے
کہتا ہے،
” میں ٹھیک ہوں امی “
” خُوش ہوں امی “
” اک دن آپ کی گود میں آکر آپ کا بیٹا بن جاؤں گا “
ہنس پڑتی ہوں
رو پڑتی ہوں
سوچتی ہوں
پھر ڈر جاتی ہوں
یعنی اب میں دو رُوحی ہوں ؟

شادی ؟


اٹھارہ سال کی ہوں
اور میرا پاؤں بھاری ہے
میرے شوہر
جو چالیس سال سے زیادہ عُمر کے ہیں
بہت ناخُوش ہیں
مُجھ سے اور اس دو ماہ کے بچے سے
جو اس دُنیا میں آیا بھی نہیں ہے
وہ کہتے ہیں
” میرے پہلے سے چھ بچے ہیں
اور دو بیویاں بھی ہیں
بہت مہنگائی ہے
کیسے بھلا میں سب کو پالوں گا
تُمہاری عُمر ہی کیا ہے
تُم اتنی خُوبصُورت ہو
کمر پتلی
تنی چھاتی
مُجسم حور لگتی ہو
یہ بچہ جسم کی جادوگری برباد کر دے گا
صُبح میں فُون کر دوں گا کلینک پہ
دفع کر دو مُصیبت یہ
پھر اس کے بعد ہم کشمیر میں کُچھ دن گُزاریں گے
تُمہیں شاپنگ کراؤں گا
نیا زیور دلاؤں گا
میری جاں یاد رکھنا کہ مُجھے تُم سے مُحبت ہے “
پھر اس کے بعد کیا ہو گا ؟
یہی ہوتا رہے گا کیا ؟
اسی کا نام شادی ہے ؟
سوالوں کی یہ گٹھڑی
کوکھ میں پلتے ہوئے بچے کی نازُک پیٹھ پہ رکھے
میں اپنی ماں کے گھر آنگن میں بیٹھی بین کرتی ہوں
اٹھارہ سال کی ہوں
اور میرا پاؤں بھاری ہے
ثمینہ تبسُم

کزن میرج !!!


ہسپتال کا کمرہ
قبر جیسا لگتا ہے
آسمان ٹُوٹا ہے
آج یوم ـ محشر ہے
جسم پہ تشننُج ہے
ایڑیاں رگڑتی ہوں
درد اسقدر ہے کہ
جاں نکلنے والی ہے
یاد ہے مُجھے وہ دن
اپنے حمل کا سُن کے
میں خُوشی سے پاگل تھی
ڈاکٹر یہ کہتی تھی
معجزہ ہے یہ کوئ
میرے پیٹ میں میرے
پہلے پہلے بچے کی
میٹھی میٹھی حرکت تھی
مُجھ کو ایسا لگتا تھا
میری بند مُٹھی میں
جیسے کوئی تتلی ہو
روز اک نیا دن تھا
روز اک کہانی تھی
کتنی معتبر تھی میں
میرے پاؤں کے نیجے
جنت آنے والی تھی
سب کو ایسا لگتا تھا
دن بدن نکھرتی ہوں
چاند جیسا چہرہ ہے
تارا تارا آنکھیں ہیں
کہکشاں پہ چلتی ہوں
آسماں کو چُھوتی ہوں
نظر بد نہ لگ جائے
ہونے والے بچے کو
روز آیت الکُرسی
پڑھ کے پُھونک لیتی تھی
صدقہ دیتی رہتی تھی
اور دُعائیں کرتی تھی
پانچواں مہینہ تھا
اور خُوش تھی میں کہ اب
چند ہی مہینوں میں
ایک چاند سا بیٹا
میری گود میں ہوگا
پر نصیب کا لکھا
کون ٹال سکتا ہے
کیا بُری گھڑی تھی وہ
درد کی کٹاری سے
رُوح بھی چیخ اُٹھی تھی
جسم خُون میں تر تھا
میری جان کا ٹُکڑا
میرا بجہ مُردہ تھا
ڈاکٹر کا کہنا ہے
نسل در نسل اکثر
فیملی میں شادی سے
اس طرح سے ہوتا ہے
خُوں کا کمبی نیشن کُچھ
اس طرح بگڑتا ہے
کہ حمل ٹھہرتا ہے
اُس میں جاں بھی پڑتی ہے
پر وہ جی نہیں سکتا
بجہ ہو نہیں سکتا
آسمان ٹُوٹا ہے
ہسپتال کا کمرہ
قبر جیسا لگتا ہے
ثمینہ تبسُم

Sunday, 24 August 2014

عمران خان !!!


سُنو
کل تک جو مٹی اپنے ماتھے سے لگا کر
اک نظر تُم آسمانوں کی طرف تکتے تھے
بازی جیت لیتے تھے
اُسی مٹی میں ہم نے اپنی نسلوں کا مُقدر بو دیا ہے
تو اب تُم ہو
یہ دھرتی ماں ہے
اللہ ہے
تو خالی ہاتھ مت آنا
کہ ہم سب نے
تُمہارے نام کی چادر کا جو جھنڈا بنایا ہے
اُسے ہم نے نئی صُبح کے سُورج سے سجانا ہے
قدم آگے بڑھانا تُم
کہ خالی ہاتھ مت آنا
کہ خالی ہاتھ مت انا
ثمینہ تبسُم

Saturday, 23 August 2014

فیس بُک فیملی !!!



کسی کو کیا بتانا ہے
کسی سے کیا چُھپانا ہے
کسی نے کس کو کیا لکھا
کسی نے کیوں نہیں لکھا

ارے بابا !!!
یہ سب کُچھ سوچنا میرے لیئے ممکن نہیں ہے
میرے بس میں تو بس یہ ہے...
مُحبت سے مُحبت کے لیئے سوچوں
دلوں کو جوڑ کے رکھنا
مُحبت ہے
مُحبت ہے
کسی رُوٹھے کو منٹوں میں منا لینا
مُحبت ہے
مُحبت ہے
دُکھی چہروں کو گہری مُسکراہٹ سے سجا دینا
مُحبت ہے
مُحبت ہے
کُھلے دل سے مُحبت کے لیئے جینا بھی آفاقی مُحبت ہے
یہی ہے جو میں کر سکتی ہوں
کرنا چاہتی ہوں
مُحبت ہوں
مُحبت ہوں

ثمینہ تبسُم

دھرتی ماں !!!


ہم حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاضر ہیں
جب بات ہماری جاں کی تھی
خاموش رہے
اب بات تیری عزت کی ہے
اب خاموشی اک لعنت ہے
اے ماں
تیرے آنچل کی حرمت بہ...
جان بھی جاے
دے دیں گے
ہم تن من دھن سے حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاظر ہیں
ثمینہ تبسم

وٹس اپ اللہ جی ???



یہ جو آپ ہر ُکچھ دن کے بعد
میری زندگی میں
ایک نیا ڈرامہ شُروع کر دیتے ہو
آخر آپ کیا چاہتے ہو ?

آپ کی کہانی
آپ کا ہیرو
آپ کی ہیروئین...
دونوں کے مسلئے
ظالم سماج
بہت مزہ آتا ہے ناں آپ کو اس سب کنفیوژن سے ?
مُجھے بتایئے ناں
اب یہ میرا جھلا سا مجنوں
میرا سوہنا
میرا رانجھا
میرا سُوئیٹ ہارٹ
میری جان
کیا کروں گی میں اُس کا???
مُجھے مسلہ کوئی نہیں ہے
مگر پھر بھی
ذرا کُھل کے بتائیے
بہت مزہ آتا ہے ناں آپ کو مُجھے اس چکر میں پھنسا کے??
جُونہی مُجھے لگتا ہے کہ اب سب ٹھیک ہے
آپ ٹھک سے صفحہ پلٹ دیتے ہو کہانی کا
آللہ جی
آخر آپ کیا چاہتے ہو???

ثمینہ تبُسم

ماڈرن ہیر !!!



تُم جو ہو نا
بڑے خراب ہو تُم
ایم سی، پی سی تُمہاری باتوں سے
بائی گوڈ آئی ہیو کرش اون یُو

ماڈرن ہیر
ماڈرن رانجھا
پیار کی سیر گاہ میں آکر...
ساری ڈیوائسسز کے بُوتے پہ
خُفیہ نمبروں سے گُوندھ کر دونوں
روز کھاتے ہیں پیار کی چُوری
فیس بُک فیملی کے ریوڑ کو
عشق کے کھیت میں چراتے ہیں
سارے ہیکرز.... ماڈرن قیدُو
اور سب ایپ .... ماڈرن کھیڑے
کہنا
سُننا
دیکھانا
سب کرنا
مست ہیں بانسری بجاتے ہیں

دیکھا بس اس لیئے میں کہتی ہوں
ایم سی , پی سی
تُمہاری باتوں نے
ساری تاریں میری ملا دی ہیں

ثمینہ تبُسم

سالگرہ !!!

 


میں اپنی ماں کی چوتھی بیٹی ہوں
مُجھے مانگا نہیں گیا
مُجھے چاہا نہیں گیا
میری سالگرہ کبھی نہیں منائی گئی
اور یہ دُکھ میری ذات کا حصہ بن گیا

اب ہر سال
جب میری بیٹی مُجھے گلے لگا کر کہتی ہے...
" امی ۔۔۔ مُجھے آپ پہ فخر ہے ۔۔۔ میں آپ سے بہت مُحبت کرتی ہوں "
تو میرے دل پہ گرتے آنسُو
ایک شرمیلی سی مُسکراہٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں
میری آنکھیں جگمگا اُٹھتی ہیں
اور میں خُود سے کہتی ہوں
" سالگرہ مُبارک ہو "

ثمینہ تبسُم

رُوحانی خُودکُشی !!!



تُمہیں مُجھ سے مُحبت ہے
مُجھے تُم سے مُحبت ہے
یہی سچ ہے
یہی حق ہے
مُحبت سے بڑا رشتہ نہیں ہے

تو جان_ جاں
ہمارے درمیاں جو ہے...
اُسے دُنیا کی نظروں سے نہیں دیکھو
کہ دُنیا تو خُدا کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھی ہے صدیوں سے
وہ مذہب کی پٹاری سے
کوئی فتوی‘ نکالے گی
ہمیں سنگسار کر دے گی

" مُحبت پتھروں کی بارشوں سے مر نہیں جاتی "

ابھی بھی وقت ہے جاناں
چلو ۔۔۔ واپس پلٹ جائیں
تُم اپنے سرد کمرے میں اکیلے بیٹھ کے رونا
میں اپنی آگ میں جل جل کے خُود کو راکھ کر لُوں گی

" رُوحانی خُود کُشی کا ذمہ اس دُنیا کے سر ہو گا "

ہمارے درمیاں جو ہے
وہ مُردہ قبرکا کُتبہ نہیں ہے
وہ اک زندہ حقیقت ہے
اُسے دُنیا کی نظروں سے نہیں دیکھو
کہ دُنیا تو ۔۔۔۔۔۔۔

ثمینہ تبسُم

Monday, 11 August 2014

مُحبتی !!!



میں وہ راز ہوں
میں وہ آگ ہوں
میں وہ داغ ہوں 
میرے بھولییا

جو نہ کُھل سکا
جو نہ بُجھ سکا
جو نہ دُھل سکا
میرے کملییا

میں خیال ہوں
میں سراب ہوں
میں شباب ہوں
میرے رانجھیا

نہ سمٹ سکوں
نہ ہی مل سکوں
نہ ٹھہر سکوں
میرے ہیریئیا

مُجھے اپنا کر
مُجھے پیار کر
مُجھے دل میں رکھ
میرے سوہنییا

میں مُحبتی
میں مُحبتی
میں مُحبتی
میرے جوگیا

ثمینہ تبسُم

دھرتی ماں !!!


ہم حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاظر ہیں
جب بات ہماری جاں کی تھی
خاموش رہے
اب بات تیری عزت کی ہے
اب خاموشی اک لعنت ہے
اے ماں 
تیرے آنچل کی حرمت بہ
جان بھی جاے
دے دیں گے
ہم تن من دھن سے حاظر ہیں
اے ماں
قسم سے حاظر ہیں
ثمینہ تبسم

نقارہ !!!



کیا اندھے ہو ?
کیا گونگے ہو ?
کیا لنگڑے لُولے رہ کے جینا چاہتے ہو ?
جب نہیں تو مُردہ رُوح کیوں ہو ?
جب نہیں تو بولو زندہ ہوں
جب نہیں تو سر کو اُٹھاو اب
جب نہیں تو قدم بڑھاو اب
تو کہہ دو اک آواز میں سب
اب اور نہیں
اب بس
اب بس
اب بس
ثمینہ تبسم

Saturday, 2 August 2014

عُمر قید !!!



پردیس میں رہنے والو

جب بارہ بارہ گھنٹے کی شفٹیں تُمہیں مفلُوج کر دیتی ہیں
جب بازاری کھانا کھاتے ہُوئے گھونٹ گھونٹ آنسُو پیتے ہو
جب ہر شام تنہائی کی جادر اوڑھے چُپ چاپ بیٹھے ٹی وی کو گھورتے ہو
اور جب اپنے بدن کی آگ اور پانی میں خُود ہی جلتے پگھلتے ہو
کبھی یہ سوچا ہے ؟
کہ وہ عورت جسے تُم دیس میں چھوڑ آئے ہو
اُس پہ کیا گُزرتی ہو گی ؟

ثمینہ تبسُم

مُحبت کا سفر !!!



آؤ 
ہم اپنی ذات کی قید سے آزاد ہو کر
روشنی کی تلاش میں چلیں
راستہ طویل سہی
دُشوار سہی
تاریک سہی
مگر مُجھے یقین ہے کہ ایک دن
ہم بند سوچوں کی اندھی سُرنگ سے باہر نکل کر
اُن آسُودہ وادیوں میں اُتریں گے
جہاں اُمید کے جُگنُو
اور خُوشی کی تتلیاں
ہمارا استقبال کریں گی
جیاں صرف مُحبت کا راج ہو گا
آؤ
ہم محدُود سے لامحدُود ہو جائیں
ہم انسان بن جائیں 

ثمینہ تبسُم

پردیس !!!



مانا دُور بہت ہو رہتے
مانا تُم کو کام بہت ہے
مانا ایس ایم ایس کرو گے
مانا فُون پہ بات کرو گے
مانا کہ وٹس ایپ پہ فوٹو بھی بھیجو گے
پر دیکھو نہ
اج کی رات بھی میرے بیڈ پہ ایک سرہانہ
چُپ چُپ سا تنہا لیٹا ہے
تنہائی کو سہہ نئیں سکتی
اور کبھی میں کُچھ نہیں کہتی
آج مگر تُم 
آجاو ناں
مر جانی کو گلے لگا کے 
چاند مُبارک کہہ جاؤ ناں 
آ جاؤ ناں

ثمینہ تبسُم

بند مٹھی!!!



وہی
ویسا ہی
جیسے تھا
سبھی کُچھ ہے

بڑے بڑے بٹنوں والا بابا آدم کے زمانے کا ریڈیو
پلنگ کے سرہانے کی طرف تہہ کر کے رکھی ہوئی جائے نماز
مدینہ شریف کی ہرے دانوں والی تسبح اور سفید ٹوپی
موٹے موٹے شیشوں والی نظر کی عینک
ایک کٹوری میں رکھی ہوئی بتیسی
نیلی ٹوکری
اور ٹوکری میں رکھی ہوئی ہومیو پیتھک کی دوائیاں
دیسی چُورن کی کئی پُڑیاں
کُھلے اور بند لفافے
اور بڑی چھوٹی ڈبیاں 
انگیٹھی پہ ترتیب سے رکھے ہوئےضیائے حرم کے درجنوں رسالے
الماری میں لٹکی ہوئی رنگین ٹائیاں
نئے اور پُرانے مفلر
سویٹر اور اُونی ٹوپیاں
موزے اور جُوتے
چپل اور کیھڑیاں
میل خُوردہ کالروں والی شرٹیں
بوسکی کے کُرتے اور لٹھے کی شلواریں
ایک ہلتی ہوئی کُرسی
اور درازوں والی بھاری میز

سبھی کُچھ ہے
ابھی کُچھ دیر پہلے تک
یہ چیزیں سانس لیتی تھیں
یہ اک دُوجے پہ ہنستی
چھینکتی
اور کھانستی تھیں

بس 
ابھی کُچھ دیر پہلے
اُس نے سب چیزوں کی رُوح
اپنی برف ہوتی ہوئی
جُھریوں بھری مُٹھی میں بند کر لی

ابھی کُچھ دیر پہلے تک
اس کمرے میں
اُس کے ساتھ ہر چیز زندہ تھی

ثمینہ تبسُم

چور!!!



بظاہر سب ٹھیک ہے
وہی خُوبصورتی سے بنے بال
نفاست سے کٹے ناخُن
اور خُوش لباسی

کھانا پینا
واک پہ جانا
کتابیں پڑھنا
ٹی وی دیکھنا 
بات سُن کے سمجھنا اور مُسکرا دینا

سبھی کُچھ ہے
مگر اُس کی ویران آنکھیں دیکھی نہیں جاتیں
اگرچہ وہ ہے 
مگر اسے نہیں معلوم کہ وہ کون ہے

اُس کی یادوں کا خزانہ سفاک الزائمرز نے چوری کر لیا ہے
اور اُس چور کا کوئی کُچھ نہیں بگاڑ سکتا 

ثمینہ تبسُم

نیا چاند !!!


 
وہ بھی وقت تھا
جب کائنات خاموش تھی
سُنسان تھی
اُداس تھی
راتیں لمبی اور تاریک تھیں

پھر تُم نے درشن دیئے
دھیرے دھیرے
چاندنی چٹکنے لگی
تارے چمکنے لگے
کہکشاں پُورے دنوں سے تھی

کہ اچانک
تُم نے کروٹ بدلی
کسی اور آنگن میں جا اُترے
راتوں کو گرہن لگ گیا

لیکن اب
میں سوگ نہیں مناتی
نئے چاند کا انتظار کرتی ہوں
 ثمینہ تبسُم
 
 

Sunday, 20 July 2014

دل والی !!!

میں اُس مٹی کی مٹی ہوں
جس مٹی میں دل اُگتے ہیں
وہ دل جو فیض اور جالب ہیں
وہ دل اشفاق ہیں قدرت ہیں
وہ دل فہمیدہ ، عذرا ہیں
وہ دل جو نُور جہاں بھی ہیں
وہ دل جو سوہنی ، ہیر بھی ہیں
وہ دل جو رانجھے مرزا ہیں
وہ دل۔۔۔۔ دل والوں کے دل ہیں
جو اُس مٹی میں اُگتے ہیں
میں اُس مٹی کی مٹی ہوں
دل والی ہوں
دل والی ہوں
ثمینہ تبسُم

Saturday, 19 July 2014

بوسہ !!!


میرے ماتھے پہ آئی
شدت _ جذبات کی ہلکی نمی کو چُوم کر
آنکھوں میں جُگنُو بن کے ٹھہرا
اور پھر 
میرے لبوں کو 
میرے پگلے سے پیا کی نرم گرمی دے کے 
گردن چُومتا
سینے سے لگتا
دل میں جا بیٹھا
میں سُچے موتیوں کو چُن رہی ہوں
مُحبت سے مُحبت بُن رہی ہوں

Friday, 18 July 2014

ساون !!!


یہ جو گیلی گیلی سی شام ہے
یہ جو ہلکا ہلکا نشہ سا ہے
یہ جو سوئے سوئے سے خاب ہیں
ذرا دھیرے دھیرے انہیں جگا
میری تشنہ تشنہ سی خاہشیں
میرے بہکے بہکے سے پیار کی
یہ جو دھیمی دھیمی سی آگ ہے
اسےہولے ہولے سے چکھ ذرا
بڑی چٹخی چٹخی ہیں ساعتیں
میرا لمحہ لمحہ سنوار دے
میری پور پور کو چُوم لے
مُجھے قطرہ قطرہ سیراب کر
مُجھے پیار کر
مُجھے پیار کر
مُجھے پیار کر
مُجھے پیار کر
ثمینہ تبسُم

Thursday, 17 July 2014

بوسہ !!!

میرے ماتھے پہ آئی
شدت _ جذبات کی ہلکی نمی کو چُوم کر
آنکھوں میں جُگنُو بن کے ٹھہرا
اور پھر 
میرے لبوں کو 
میرے پگلے سے پیا کی نرم گرمی دے کے 
گردن چُومتا
سینے سے لگتا
دل میں جا بیٹھا
میں سُچے موتیوں کو چُن رہی ہوں
مُحبت سے مُحبت بُن رہی ہوں
ثمینہ تبسم۔۔

Wednesday, 16 July 2014

اے کاش !!!


تو چاند چہروں پہ تارا آنکھوں میں خاب جگتے 
تو صحن ـ دل میں گُلاب کھلتے
تو گھر کے آنگن میں فاختائیں برات لاتیں
تو امن دُلہا کے سہرے گاتے
عُروس ـ راحت کے ہاتھ خُوشیوں کی مہندی سجتی
وصال ہوتے
نہال ہوتے
جو ہم مُحبت کی راہ چلتے

تو یہ نہ ہوتا 
جو ہو رہا ہے

ثمینہ تبسم

Tuesday, 15 July 2014

ابلیسی مُہرے !!!


خُدا کو ماننے والو
خُدا کا واسطہ تُم کو
ذرا بج کے رہو اُن سے
وہ شیطانی ذہن
جن کے لیئے انساں فقط شطرنج کے مُہرے ہیں
وہ بغلوں میں مذاہب کی بساطیں لے کے پھرتے ہیں
کبھی اُن کو بجھاتے ہیں وہ افغانی پہاڑوں میں
کبھی وہ تیل کے کنوؤں میں جاکر عیش کرتے ہیں
کبھی ایران و پاکستاں کو اُنگلی پہ نچاتے ہیں
کبھی غزہ میں بچوں کا لہو پی پی کے جیتے ہیں
وہ دُھتکارے ہوئے ابلیس کی مکرُوہ اولادیں ہیں
جو مذہب کے لبادے میں
خُدا کی قوت ـ شہکار
نسل ـ آدم و حوا کو یکسر ختم کرنا چاہتے ہیں
ذرا بچ کے رہو اُن سے
خُدا کا واسطہ تُم کو
خُدا کو ماننے والو
ثمینہ تبسم

Monday, 14 July 2014

خُود آگاہی !!!


دیکھنے میں
اگرچہ شانت ہوں میں
پر بڑی ہی جوالہ مُکھی ہوں
میری سوچیں
اُڑن کھٹولہ ہیں
اور میں
ایک جادُو گرنی ہوں

Sunday, 13 July 2014

سفر !!!


کوئی رستہ ہے
جس پہ چل رہی ہوں
کہیں پہ دُور
اک بستی میں
اک جلتی ہوئی شمع کے چاروں اور
کوئی ہے
جو دھم دھم ناچتا ہے
وہ اپنے سر پہ باندھی دُودھیا چادر کو
پرچم سا بنا کر
ایک اُونچی تان لیتا ھے
تو اُس کےہر طرف اک نُور کی برسات ہوتی ہے
اور ان لاکھوں چراغوں میں
کوئی اک اسم _ اعظم 
آسمانوں کی حدوں کو چیر کے رستہ بناتا ہے
وہی رستہ ہے جس پہ چل رہ ہوں
یہی سچ ہے
مُحبت کر رہی ھوں