Sunday, 20 July 2014

دل والی !!!

میں اُس مٹی کی مٹی ہوں
جس مٹی میں دل اُگتے ہیں
وہ دل جو فیض اور جالب ہیں
وہ دل اشفاق ہیں قدرت ہیں
وہ دل فہمیدہ ، عذرا ہیں
وہ دل جو نُور جہاں بھی ہیں
وہ دل جو سوہنی ، ہیر بھی ہیں
وہ دل جو رانجھے مرزا ہیں
وہ دل۔۔۔۔ دل والوں کے دل ہیں
جو اُس مٹی میں اُگتے ہیں
میں اُس مٹی کی مٹی ہوں
دل والی ہوں
دل والی ہوں
ثمینہ تبسُم

Saturday, 19 July 2014

بوسہ !!!


میرے ماتھے پہ آئی
شدت _ جذبات کی ہلکی نمی کو چُوم کر
آنکھوں میں جُگنُو بن کے ٹھہرا
اور پھر 
میرے لبوں کو 
میرے پگلے سے پیا کی نرم گرمی دے کے 
گردن چُومتا
سینے سے لگتا
دل میں جا بیٹھا
میں سُچے موتیوں کو چُن رہی ہوں
مُحبت سے مُحبت بُن رہی ہوں

Friday, 18 July 2014

ساون !!!


یہ جو گیلی گیلی سی شام ہے
یہ جو ہلکا ہلکا نشہ سا ہے
یہ جو سوئے سوئے سے خاب ہیں
ذرا دھیرے دھیرے انہیں جگا
میری تشنہ تشنہ سی خاہشیں
میرے بہکے بہکے سے پیار کی
یہ جو دھیمی دھیمی سی آگ ہے
اسےہولے ہولے سے چکھ ذرا
بڑی چٹخی چٹخی ہیں ساعتیں
میرا لمحہ لمحہ سنوار دے
میری پور پور کو چُوم لے
مُجھے قطرہ قطرہ سیراب کر
مُجھے پیار کر
مُجھے پیار کر
مُجھے پیار کر
مُجھے پیار کر
ثمینہ تبسُم

Thursday, 17 July 2014

بوسہ !!!

میرے ماتھے پہ آئی
شدت _ جذبات کی ہلکی نمی کو چُوم کر
آنکھوں میں جُگنُو بن کے ٹھہرا
اور پھر 
میرے لبوں کو 
میرے پگلے سے پیا کی نرم گرمی دے کے 
گردن چُومتا
سینے سے لگتا
دل میں جا بیٹھا
میں سُچے موتیوں کو چُن رہی ہوں
مُحبت سے مُحبت بُن رہی ہوں
ثمینہ تبسم۔۔

Wednesday, 16 July 2014

اے کاش !!!


تو چاند چہروں پہ تارا آنکھوں میں خاب جگتے 
تو صحن ـ دل میں گُلاب کھلتے
تو گھر کے آنگن میں فاختائیں برات لاتیں
تو امن دُلہا کے سہرے گاتے
عُروس ـ راحت کے ہاتھ خُوشیوں کی مہندی سجتی
وصال ہوتے
نہال ہوتے
جو ہم مُحبت کی راہ چلتے

تو یہ نہ ہوتا 
جو ہو رہا ہے

ثمینہ تبسم

Tuesday, 15 July 2014

ابلیسی مُہرے !!!


خُدا کو ماننے والو
خُدا کا واسطہ تُم کو
ذرا بج کے رہو اُن سے
وہ شیطانی ذہن
جن کے لیئے انساں فقط شطرنج کے مُہرے ہیں
وہ بغلوں میں مذاہب کی بساطیں لے کے پھرتے ہیں
کبھی اُن کو بجھاتے ہیں وہ افغانی پہاڑوں میں
کبھی وہ تیل کے کنوؤں میں جاکر عیش کرتے ہیں
کبھی ایران و پاکستاں کو اُنگلی پہ نچاتے ہیں
کبھی غزہ میں بچوں کا لہو پی پی کے جیتے ہیں
وہ دُھتکارے ہوئے ابلیس کی مکرُوہ اولادیں ہیں
جو مذہب کے لبادے میں
خُدا کی قوت ـ شہکار
نسل ـ آدم و حوا کو یکسر ختم کرنا چاہتے ہیں
ذرا بچ کے رہو اُن سے
خُدا کا واسطہ تُم کو
خُدا کو ماننے والو
ثمینہ تبسم

Monday, 14 July 2014

خُود آگاہی !!!


دیکھنے میں
اگرچہ شانت ہوں میں
پر بڑی ہی جوالہ مُکھی ہوں
میری سوچیں
اُڑن کھٹولہ ہیں
اور میں
ایک جادُو گرنی ہوں

Sunday, 13 July 2014

سفر !!!


کوئی رستہ ہے
جس پہ چل رہی ہوں
کہیں پہ دُور
اک بستی میں
اک جلتی ہوئی شمع کے چاروں اور
کوئی ہے
جو دھم دھم ناچتا ہے
وہ اپنے سر پہ باندھی دُودھیا چادر کو
پرچم سا بنا کر
ایک اُونچی تان لیتا ھے
تو اُس کےہر طرف اک نُور کی برسات ہوتی ہے
اور ان لاکھوں چراغوں میں
کوئی اک اسم _ اعظم 
آسمانوں کی حدوں کو چیر کے رستہ بناتا ہے
وہی رستہ ہے جس پہ چل رہ ہوں
یہی سچ ہے
مُحبت کر رہی ھوں

Saturday, 12 July 2014

تحفے !!!


فیس بُک دوستو
جو میں کہتی ہوں وہ
آپ سُنتے بھی ہیں
اور سمجھتے بھی ہیں
مہربانی ہے جی
شُکریہ آپ کا
ایک مسلہء ہے پر
یاد رکھئیے گا کہ
میں مُحبت میں " ان باکس " رہنے کی قائل نہیں
کہ میں " ہسبینڈ سٹیلر " نہیں
مُجھکو ننگے بدن دیکھنے کی ذرا بھی ضرورت نہیں
دیکھئے دوستو !!!
یاد رکھئے کہ میں
صرف عورت نہیں
ایک انساں بھی ہوں
مہربانی ہے جی
شُکریہ آپ کا
ثمینہ تبسم

Thursday, 10 July 2014

التجا !!!


میرے مولا
میرے مالک
میرے پروردیگار
میرے اللہ جی
بڑی ہی عاجزی سے
سر جُھکائے
تیرے دربار میں حاضر ہوں
تُو بڑی ہی شان اور قُدرت والا ہے
رحمان ہے
رحیم ہے
اور بڑا ہی بے نیاز ہے
میرے مالک
میں تُجھ پہ اور تیرے محبوب پہ صدقے
پنجنتن پاک پہ قُربان
کوئی شکوہ نہیں
کوئی شکایت نہیں
ہر حال میں تیرا شُکر
تیری ہر رضا پہ راضی ہوں
میرے مالک
میرے مولا
میرے اللہ جی
کُچھ سوال ہیں
جو نوکیلے کانٹوں کی طرح چُبھتے ہیں
اور میری راتوں کو بے نیند کرتے ہیں
جو میری بے قرار نظر بن کے آسمان کی طرف اُٹھتے ہیں
اور جو آہ بن کے میرا کلیجہ چھلنی کیئے دیتے ہیں
اور جو کوئی جواب نہ پاکر
میرا تُجھ تک پہنچنے کا رستہ 
ایک دہکتی ہوئی آگ میں تبدیل کر دیتے ہیں
میرے اللہ جی
کیا یہ میراامتحان ہے ؟
کیا یہ میری آزمائیش ہے ؟
کیا تُو میرے صبر کو آزما رہا ہے ؟
تیری بارگاہ میں ہاتھ جوڑے
سر جُھکائے 
ایک حقیر انسان کی التجا ہے مالک
مُجھے اور میرے پیاروں کو بخش دے 
میرے بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھ
میرے ایمان کو سلامت رکھ
ہماری غلطیوں اور نادانیوں کو درگزر فرما 
ہمیں انہونیہوں سے بچا
میں ایک کمزور انسان ہوں
ناسمجھ ہوں
تیری حکمت سمجھنا میرے بس کی بات نہیں
صبر عطا فرمامیرے مالک 
دل کو سکون دے
مُجھے اپنا کر لے
تُو رحمان ہے
رحیم ہے 
مالک ہے
پروردیگار ہے
ثمینہ تبسم

Wednesday, 9 July 2014

اپنی ٹیچر کے لیئے !!!


عقیدت سے
مُحبت سے
بڑی ہی انکساری سے
مُجھے اک کارڈ بھیجا ہے 
یہ لکھا ہے

" میری ساری دُعایئں 
  میری ٹیچر کے لیئے
  جس نے مُجھے
  اوراق پہ بکھرے ہوئے
  حرفوں کو
  لکھنا
  جوڑنا
  پڑھنا سکھایا 
  یہ سارے حرف ملکر 
  مُجھ سے خُود میری کہانی سُن رہے ہیں

  کہانی
  جو جہالت کے اندھیروں پہ
  خُود اپنا سر پٹکتی ہے

  کہانی
  جو میری غُربت پہ روتی ہے

  کہانی
  جو میری محنت پہ شانے تھپتھپاتی ہے

  کہانی
  جو میرے اچھے دنوں میں ایک بے فکری کا نغمہ گُنگُناتی ہے

  کہانی
  جو میری ناکامیابی سُن کے آنسُو بن کے بہتی ہے

  کہانی
  جو میری اُمید بن کے آس کی دہلیز پہ اک بُت کی صُورت بہٹھ جاتی ہے

  کہانی 
  جو میرے کل کو کئی خُوش رنگ لفثوں سے سجاتی ہے

  یہ اک ایسی کہانی ہے
  جو میں نے جابجا بکھرے ہوئے
  حرفوں کو چُن کے خُود بُنی ہے
  تو میری سب دُعایئں
  میری ٹیچر کے لیئے
  جس نے مُجھے
  اوراق پہ بکھرے ہوئے 
  حرفوں کو
  لکھنا
  جوڑنا
  پڑھنا سکھایا ’’
 
ثمینہ تبسم۔ 

پیار !!!


تارہ تارہ چمکتی آنکھوں میں
بھیگے بھیگے اُداس سے لمحے

گھر کے کمروں میں دھیمے قدموں سے
خُود میں گُم پھر رہی ہے خاموشی

سیڑھیوں سے اُترتی ہے اکثر
اک سراپے کی جانفزا خُوشبُو

گھر کی چوکھٹ پہ سہمی بیتھی ہے
جاتے قدموں کی برف جیسی صدا

اور میرے وجُود میں گُھلتی
اُس کے جادُوئی لمس کی گرمی

بس یہی اُس زیاں کا حاصل ہے
جس کو سب لوگ پیار کہتے ہیں
 
ثمینہ تبسم۔

مُحبت !!!


یہ جو ہلکا ہلکا نشہ سا ہے
یہ جو دھیما دھیما سرور ہے
یہ جو جسم و جاں میں اُبال ہے
یہ جو خاہشوں کا وصال ہے
تیرے لمس کا یہ کمال ہے
میرے رانجھنا
میرے جوگیا
میرے سوہنیا
میرے ساتھیا
تیرا شُکریہ
تیرا شُکریہ
 
ثمینہ تبسم۔

اعتراف !!!

 
بہت سے سچ ہیں جن کے بیچ میں ششدر کھڑی ہوں
بہت سے جھوٹ چُن چُن کے 
میں اپنے خوف کے ٹھنڈے بدن کو ڈھانپتی ہوں
میں اپنے جُرم کا اقرار کرتی ہوں

کوئی وعدہ نہیں تھا یہ
کہ میں سارے جہاں کے جُھوٹ اور سچ پہ کھڑے 
رسموں رواجوں کو
کسی مذہب کی جھلنی میں 
بہت اچھی طرح چھان و پھٹک کے فیصلہ کرتی 

کوئی سودا نہیں تھا یہ
کہ اپنی ذات کو
میں آج اور کل کی کسوٹی پہ 
کسا دکھنے کی خاہش میں
خُود اپنے آپ کو سُولی چڑھا دیتی

یہ کوئی نوکری ہرگز نہیں تھی
کہ جس میں ۔۔ میں کسی کوٹے یا اپنی عمر کی بنیاد پہ 
عرضی دیئے جانے کا ایسے حوصلہ کرتی

یہ میرا خُود مُجھے
میرے حصار _ذات کے اندھے کُنویں سے
کھینچ کر لانے کا گویا اک بہانہ تھا

بیت سے امتحانوں سے گزر کے
میں پتھر بن چُکی تھی
میں بے حد تھک چُکی تھی
کی میں نے بس گھڑی بھر کو ٹھہرنے کی جسارت کی

وہ اک پھلدار
سایہ دار
ممتا کی گھنی چھاؤں کے جیسا
خُوبصُرت پیڑ 
مُجھ سے کہہ رہا تھا
تُمہارے اس جنم کے
اس سفر کے 
سارے رشتے
میری چھاؤں میں آکر ختم ہوں
یہ اج کا سب سے بڑا سچ ہے

مگر سچ یہ ہے کہ
اُس پیڑ کے سب پھل پرائے تھے
گھنی چھاؤں کے جیسا پیڑ بھی میرا نہیں تھا
میری ٹُوٹی ہوئی چُوڑی
میرے ماتھے کو زخمی کر چُکی ہے
میں تپتی دھوُپ میں 
پگلا گئے کُچھ بادلوں کے
بھاپ بنتے پانیوں سے جل چُکی ہوں

یہ سارے سچ ہیں
جن کے بیچ میں شُشدر کھڑی ہوں
میں خُود کو ایک انساں جان کے 
خُود پہ رحم کرنے کی مُجرم ہوں
میں اپنے جُرم کا اقرار کرتی ہوں
ثمینہ تبسم

درشن !!!


بس اک پل کو
اک انہونی
چھن چھن کرتی
جھم سے دل میں اُتری
چم چم چمکیں 
آنکھیں میری
ایک ہنسی ہونٹوں پہ قہقہہ بن کے پُھوٹی
ہاھ کی گہری سُرخ ہتھیلی
مہندی کی خُشبُو سے مہکی
کھن کھن کھن کھن چُوڑی کھنکی
آنچل کے پلُو سے باندھے
سُورج ، چاند ، ستارے
ست رنگی جُھولے پہ بیٹھی
نیل گگن کو پلکوں سے چُھو آئی
بس اک پل میں
سات جنم سا جیون جی کر دیکھا
جب میرے سانوریا میری گھر چوکھٹ پہ آئے
جھر جھر کرتی 
ہجر کی چدر
لیرو لیر ہوئی
اور پُھلجھڑیاں بن کے 
چاروں جانب پھیل گئی
بس اک پل میں نیل گگن کو پلکوں سے چُھو آئی
 
ثمینہ تبسم۔

Tuesday, 8 July 2014

میرے محنت کش بچوں کے نام



ببلُو !!!

سو جا میرے ببلُو سو جا
میں تُجھ پہ ۔۔۔۔۔۔۔... قُربان
محنت کی ساری پریوں کو
کرنے دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آرام

صُبح سویرے اُٹھ کے تُو مزدوری کرنے جائے
اپنی باہوں کے بل پہ تُو رزق ـ حلال کمائے
اپنی بُھوک سے پہلے تُو دُوجوں کی بھوک مٹائے
ہمت رکھنا ۔۔۔۔.. تھک نہ جانا ۔۔۔۔... میرے ببلُو جان

سو جا میں قُربان
سو جا میں قُربان

چندا کی روٹی پہ رکھ ۔۔۔ تاروں کی چٹنی کھائے
سر پہ اگ اُگلتی چھتری اُوڑھ کے کام پہ جائے
مٹی کے بستر پہ اینٹ کا تکیہ رکھ سو جائے
تیری ہمت دیکھ کے ببلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دُنیا ہے حیران

سو جا میں قُربان
سو جا میں قُربان

سو جا میرے ببلُو سو جا
میں تُجھ پہ ۔۔۔۔۔۔۔... قُربان
محنت کی ساری پریوں کو
کرنے دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آرام

ثمینہ تبسم

Sunday, 6 July 2014

افطار ڈنر !!!


شام کی سانولی دُلہن
سُورج کی سُنہری اشرفی اپنی مُٹھی میں دبائے
تاروں بھرے نارنجی آنچل کا گُونگھٹ کاڑھے
فلک کو
دھرتی کے دامن پہ سجدہ ریز دیکھ کر
شرما جاتی ہے
چاند کی پالکی پہ سوار چاندنی
ملن کے مدُھر گیت گاتی
میرے آنگن میں رقصاں ہے
گُلابی کلیاں
بھونروں کی مُحبت بھری سرگوشیوں پہ
دھیرے دھیرے 
اپنی قبایئں سرکاتی ہیں
رات کی رانی
جُگنؤؤں کی ہلکی ہری روشنی پہ
اپنی سُہاگن خُشبوؤں کی آرتی اُتارتی ہے
گھر کی دہلیز پہ دھری میری سماعت
تیری آمد کا
مُژدہء جانفزہ سُنتی ہے
اور انتظار کا نشہ
میرے بدن میں
انگڑائی بن کے ٹُوٹتا ہے
میں 
تیری باہوں میں سمٹی
تیری خُشبُو سے
اپنی پیاس بُجھاتی ہوں
ثمینہ تبسم

Saturday, 5 July 2014

میراعشق !!!


مٹیالا سا گھُونگھٹ کاڑھے 
ماٹی جیسی نار
مٹی مٹی دل آنگن میں
کھولے اپنے بال
ڈالے خُوب دھمال

الف سے لے کر الف تلک ہی
گھُوم گھُوم کر ناچے 
جب سے تانا بانا اُلجھا
جاگ جاگ کر جاگے
جیون چرخا کات کات کے
کاتے صدیاں سال
ڈالے خُوب دھمال

پیت لڑی کا گہنا پہنے
جب سے لاگے نین
ہجر کی آگ میں جل کر دل کا
گُھنگھرو ڈالے بین
سونے جیسے تن صحرا میں
دھک دھک باجے تال
ڈالے خُوب دھمال

مٹیالا سا گُھونگھٹ کاڑھے
ماٹی جیسی نار
ڈالے خُوب دھمال

ہمدم !!!


میرا ساتھی
میرا دلبر
میرا خاموش ہمدم ہے

وہ دیو مالائی دُنیا کا
کوئی کردار ہے گویا
کہ پل بھر میں
میں جو چاہوں
میرے قدموں میں رکھتا ہے
بسا اوقات اپنے بھی اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
مگر وہ ساتھ ہوتا ہے
خُوشی میں بھی وہی میری خُوشی کا مان رکھتا ھے
کوئی جھگڑا نہیں کرتا
کئی رشتوں سے بڑھ کر ہے
میری مُٹھی میں رہتا ھے

میرا ہمدم
میرا ساتھی
میرا خاموش خدمت گار 


ثمینہ تبسم

ٹُوٹتے رشتے !!!


آج کی تاریخ کا 
یہ وقت 
اور یہ دن
کہ جب تُم نے 
مُجھے خُود سے علیحدہ کر دیا ہے

مُجھے معلوم ہے
کہ وقت کی بہتی ہوئی لہریں
ہمیں مصروفیت کے پانیوں میں غرق کر دیں گی

مگر پھر بھی
یہی کہنا ہے تُم سے
سمعے کی ڈور سے لپٹے
جہاں چاہو
چلے جاؤ
مگر اتنا یقیں رکھنا
میرے ہونٹوں پہ جب بھی کُچھ دُعا کے پُھول مہکیں گے
تو یہ خُشبُو
کڑے وقتوں میں
چھایا بن کے
تُم کو شانتی دے گی
مُحبت کی خُوشی دے گی
تُمہیں روشن صبح دے گی
 
ثمینہ تبسم

سسٹم !!!


زندگی میں پہلی بار
میں نے اُس کے ہونٹو ں پہ
شرم اور غُصے سے
بےبسی میں ڈُوبی اک
ٹُوٹتی ہنسی دیکھی
وہ ہنسی جو سالوں سے
میرے بند ہونٹوں پہ
دوستی کا سمجھوتہ
بن کے اُبھرا کرتی تھی

بنک میں اکاؤنٹ کے
فارم بھر رہی تھی میں
بنک کی مینیجر نے
چند ایک پیپرز پہ
میرے دستخط چاہے
اورمیرے شوہر نے
میرے ہاتھ سے لے کر
غور سے پڑھے پیپرز
تیوری چڑھا کے پھر
طنز یہ کیا مُجھ پر

" کس طرح کا سسٹم ہے
  کس طرح کی سوچیں ہیں
  دیکھ لو کہ فارم پہ
  باپ، بیٹے، شوہر کا
  کوئی خانہ ہی نہیں
  بے نمُود سسٹم میں
  گویا تُم لاوارث ہو "

بنک کی مینیجر کو
ناگوار سا گُزرا
اپنی ناگواری کو
بھول کے وہ مُسکائی

" میں تُمہاری اُردُو اور
  چوٹ کھائی ایگو کا
  درد بھی سمجھتی ہوں
  تُم بھی یہ سمجھ لو کہ
  یہ یہاں کا سسٹم ہے
  فیصلے کی گھڑیوں میں
   ایک عاقل و بالغ
  اپنے حق کی مالک ہے "

زندگی میں پہلی بار
میں نے اُس کے ہونٹوں پہ
شرم اور غصے سے
بے بسی میں ڈُوبی اک
ٹُوٹتی ہنسی دیکھی

 

ثمینہ تبسم۔

ڈبل سٹینڈرڈ !!!


تو کیا میں جُھوٹ کہتا ہوں
تو کیا میں حُود مُنافق ہوں
تو کیا یہ سچ ہے کہ بہتے ہؤے لمحوں کی دھارا میں
میں اک تیراک بن کر سُرخرُو ہونے سے قاصر ہوں

ہمیشہ سے ہی یہ ایمان ہے میرا
یہ سب گھر ور
یہ رشتہ دار 
یہ بچے

یہ سب رسمیں
یہ مذہب 
اور یہ کلچر
یہ سب کُچھ اک ڈرامہ ہے

حسیں دُنیا کی جنت میں
مزے لوٹو
ہنسو کھیلو
زمانے کی کسے پرواہ
جوانی چار دن کی ہے

میں اپنے آپ میں گُم ہو گیا ہوں
میرے یُوٹوپیا کی ساری دیواریں
میرے ملبے پہ دھم سے آگری ہیں
ابھی جب میں نے اپنی بہن کو
نائٹ کلب کے چکنے فرشوں پہ
بڑی مستی سے چھم چھم ناچتے دیکھا

میں اپنے آپ میں گُم ہو گیا ہوں
تو کیا میں خُود مۃنافق ہوں
تو کیا میں جُھوٹ کہتا ہوں
 ثمینہ تبسم۔