اج تک میں وہ ہنسی بھُول نہیں پائی ہوں
میں نے خُود جب یہ کہا تھا ماں سے
نئیے کپڑے نہیں چایئے مُجھ کو
میں بڑی بہن کی اُترن ہی پہن لوں گی ماں
تُم یہ پیسے میرے کپڑوں پہ خرچ نہ کرنا
مُجھ کو پڑھ لکھ کے بڑا بننا ہے
مُجھ کو کُچھ اور کتابیں لے دو
عین اُس لمحے
میرے بھائی نے ہاتھوں سے میرے
میرے پیسے
میرے خوابوں کی طرح چھین لیئے
اور ہنستے ہوؤے مُجھ سے یہ کہا
کتنا ہی پڑھ لے
مگر کُچھ نہیں بن پائے گی تُو
اُس نے کھینچے تھے میرے بال
میں وہ بُھول گئی
اُس کے پیروں ک وہ ٹھوکر بھی بھُلا دی میں نے
آج تک
میں وہ ہنسی بھول نہیں پائی ہوں
ثمینہ تبسم
No comments:
Post a Comment