Saturday, 5 July 2014

سچائی !!!


میں اپنے آپ سے لڑتی ہوں
جب میں ٹُوٹ جاتی ہوں
میرے اندر کی عورت سسکیاں لے لے کے روتی ہے
کہ وہ رنگوں سے
خُشبُو سے
خُوشی سے پیار کرتی ہے
اُسے بھی چاندنی اور چاند چہرے راس آتے ہیں
اُسے بھی جگمگاتی شوخ آنکھوں میں چُھپی مُسکان بھاتی ہے
مگر میں کیا کروں
مُجھکو تو اس دُنیا میں جینا ہے
کتاب _ زندگی ہر روز اک صفحہ پلٹتی ہے
کئی اک مُعمے ہر روز مُجھ کو حل بھی کرنے ہیں
میرے باہر کی عورت
سُرخروئی
نیک نامی کی
بہت اُونچی دیواریں چُنتی جاتی ہے
یہ دیواریں مُجھے خُود مُجھ سے ہی محرُوم رکھتی ہیں
کُھلی آنکھوں سے میں دن میں
ہزاروں رنگ تکتی ہوں
مگر ہر رنگ جُھوٹا ہے
دُکھی چہروں پہ نم آنکھیں مُجھے تکلیف دیتی ہیں
حسیں دُنیا کے بے حس لوگ مُجھ کو خُوں رُلاتے ہیں
میں اپنے دل پہ گرتے آنسُوؤں کو بُھول جاتی ہوں
میں ہر دم مُسکُراتی ہوں
مگر پھر خُود سے لڑتی ہوں
میں اکثر ٹُوٹ جاتی ہوں
ثمینہ تبسُم

No comments:

Post a Comment