Sunday, 6 July 2014

افطار ڈنر !!!


شام کی سانولی دُلہن
سُورج کی سُنہری اشرفی اپنی مُٹھی میں دبائے
تاروں بھرے نارنجی آنچل کا گُونگھٹ کاڑھے
فلک کو
دھرتی کے دامن پہ سجدہ ریز دیکھ کر
شرما جاتی ہے
چاند کی پالکی پہ سوار چاندنی
ملن کے مدُھر گیت گاتی
میرے آنگن میں رقصاں ہے
گُلابی کلیاں
بھونروں کی مُحبت بھری سرگوشیوں پہ
دھیرے دھیرے 
اپنی قبایئں سرکاتی ہیں
رات کی رانی
جُگنؤؤں کی ہلکی ہری روشنی پہ
اپنی سُہاگن خُشبوؤں کی آرتی اُتارتی ہے
گھر کی دہلیز پہ دھری میری سماعت
تیری آمد کا
مُژدہء جانفزہ سُنتی ہے
اور انتظار کا نشہ
میرے بدن میں
انگڑائی بن کے ٹُوٹتا ہے
میں 
تیری باہوں میں سمٹی
تیری خُشبُو سے
اپنی پیاس بُجھاتی ہوں
ثمینہ تبسم

No comments:

Post a Comment