Saturday, 5 July 2014
سسٹم !!!
زندگی میں پہلی بار
میں نے اُس کے ہونٹو ں پہ
شرم اور غُصے سے
بےبسی میں ڈُوبی اک
ٹُوٹتی ہنسی دیکھی
وہ ہنسی جو سالوں سے
میرے بند ہونٹوں پہ
دوستی کا سمجھوتہ
بن کے اُبھرا کرتی تھی
بنک میں اکاؤنٹ کے
فارم بھر رہی تھی میں
بنک کی مینیجر نے
چند ایک پیپرز پہ
میرے دستخط چاہے
اورمیرے شوہر نے
میرے ہاتھ سے لے کر
غور سے پڑھے پیپرز
تیوری چڑھا کے پھر
طنز یہ کیا مُجھ پر
" کس طرح کا سسٹم ہے
کس طرح کی سوچیں ہیں
دیکھ لو کہ فارم پہ
باپ، بیٹے، شوہر کا
کوئی خانہ ہی نہیں
بے نمُود سسٹم میں
گویا تُم لاوارث ہو "
بنک کی مینیجر کو
ناگوار سا گُزرا
اپنی ناگواری کو
بھول کے وہ مُسکائی
" میں تُمہاری اُردُو اور
چوٹ کھائی ایگو کا
درد بھی سمجھتی ہوں
تُم بھی یہ سمجھ لو کہ
یہ یہاں کا سسٹم ہے
فیصلے کی گھڑیوں میں
ایک عاقل و بالغ
اپنے حق کی مالک ہے "
زندگی میں پہلی بار
میں نے اُس کے ہونٹوں پہ
شرم اور غصے سے
بے بسی میں ڈُوبی اک
ٹُوٹتی ہنسی دیکھی
ثمینہ تبسم۔
Labels:
Urdu Poems
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment