Saturday, 5 July 2014
اجازت !!!
نئے دن کی نئی خُشبُو
سُنہری دُھوپ بن کے جھانکتی ہے میرے کمرے میں
خُوشی کا ایک نامعلوُم سا احساس لے کر
جُونہی میں اپنے بستر سے زمیں پہ پاؤں رکھتی ہوں
مُجھے تُم یاد آتے ہو
مُجھے لگتا یے جیسے تُم بھی اپنے پُرشکن بستر پہ لیٹے
نگاہیں ڈالتے ہو اپنے بے ترتیب بستر پہ
تُمیاری آنکھ سے میں دیکھتی ہوں
وہ کونے میں دُھلے کپڑوں کا اک ناراض سا گٹھر
جو تہہ ہو کر درازوں میں سمٹنا چاہتا ہے
میں تُم سے دُور
اپنے گھر کی الماری میں اک ترتیب سے رکھے ہوئے کپڑے
اُٹھا کے جھاڑنے اور تہہ لگا کے رکھنے لگتی ہوں
ٹپائی پہ دھری اک ایش ٹرے میں
ان گننت سگرٹ کے تُکروں سے
دھُواں اور باس اُٹھتی ہے
میں صندل کی اگربتی جلا لیتی ہوں کمرے میں
جرابوں کے کئی بے میل سے جوڑے
تُمہاری ٹھوکریں سہہ سہہ کے اک کونے میں سر جوڑے پڑے ہیں
تُمہارا اور میرا میل ممُکن ہی نہیں پھر بھی
نہ جانے کس لیئے کُچھ سوچتی ہوں
خُود پہ ہنستی ہوں
کچن کے سنک میں گھنٹوں پُرانے رات کے کھانے کے برتن
تُمہاری سرد اور بے مہر نظروں کو
جوابا" اپنی پتھریلی نگاہ سے تکتے جاتے ہیں
میرے گھر کے کچن کے سنک کی صورت
میں اپنے دل کے خالی پن کو تکتی ہوں
تُمہارے پاؤں سے کُچلا گیا اک پن
جو اک کالی سیاہی کے بڑے سے بد نُما دھبے کی صورت بن گیا یے
جسے تُم دیکھتے ہو اور نظریں پھیر لیتے ہو
تو میرے سامنے دیوار پہ لٹکا ہوا اک آیئنہ چُپکے سے کہتاہے
نگاہوں کے چُرا لینے سے دھبے مٹ نہیں جاتے
تُمہارے سُرمئی ہونٹوں پہ
سگرٹ اور گُزرے کل کے بے تسکین خابوں کا دُھواں سا جم گیا ہے
میرا دل مُجھ سے کہتا ہے
انہیں شاداب سا کر دوں
کسی اُمید کی ہلکی ہنسی دے کر
مگر میں کس طرح کہہ دوں
ہمارے درمیاں جو مشرقی تہذہب کا پردہ ہے
اُس کو چاک کرنے کی
مُجھے
مُجھ سے
اجازت ہی نہیں ملتی
ثمینہ تبسم
Labels:
Urdu Poems
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment