Tuesday, 1 July 2014

میرے سوہنے نعیم !!!

میرے سوہنے نعیم !!!
میرے نعیم کی لئینا تمہیں بُرا نہ لگے
تو اپنے مٹھو کو اک بار پیار کر لوں میں
میں اُس کے ماتھے کو چُوموں
گلے لگاؤں اُسے
اُسے بتاؤں وہ کتنا اہم ہے میرے لیئے
وہ ہسپتال میں ہے اور میں یہاں گھر پہ
نہ جانے صُبح سے کس طرح شام کرتی ہوں
یہ سوچتی ہوں کہ جانے دوائی لی اُس نے?
کہیں وہ سوئی نہ اب پھر سے چُب رہی ہو اُسے?
کہیں وہ پیاسا ہو اور کوئی اُس کے پاس نہ ہو ?
وہ گھر کے کھانے کا عادی نہ بھوکا سو جائے?
بڑا حساس ہے دیکھو کہیں اُداس نہ ہو?
فیاض سے یا علی سے کہو ملیں اُس کو
میں اُس کی کوئی نہیں پھر بھی میری آنکھوں سے
نہ جانے کون سے رشتے کے آنسُو گرتے ہیں
اے کاش زندگی مُجھ کو ذرا اجازت دے
میں آکے اُس کو ملوں اور اُس کو پیار کروں
میرے نعیم کی لئینا اگر بُرا نہ لگے
ثمینہ تبسم

No comments:

Post a Comment