Saturday, 5 July 2014

دوسری عورت !!!


برف گرتی رہی
گرم کمرے کی ٹھنٹدے پسینے میں ڈُوبی ہوئی کھڑکیوں سے پرے
برف گرتی رہی

ہاتھ میں فُوں لئیے
اپنے کمرے میں آرام کُرسی پہ ساکت پڑی
میں بلکتی رہی

شام کی بات ہے
روز کی طرح تُم آج بھی اپنے کاموں سے فارغ ہوئے
کار میں بیٹھ کر
فُون پہ مُجھ کو میٹھے سُروں میں گئے دن کی باتیں سُناتے رہے
میں بھی ہنستی رہی
بات سُنتی رہی
مشورے بھی دئیے
اور میری مُحبت میں ڈُوبے ہوئے
تُم نے پندرہ منٹ کا یہ تھورا سا رستہ
کوئی گھنٹہ بھر میں مُکمل کیا
گھر کے گیراج میں ٹھر کے بات کی
فُون پہ پھر یہ میں نے سُنا

" بیٹا کھانے کی ٹیبل پہ برتن لگاؤ
  میں کھانا نکالوں
  تُمہارے پپا آگئے ہیں "
گھر کے اندر سے آئی بڑی گرم جوشی میں ڈُوبی صدا

تُم نے بےحد مُحبت سے کل پھر سے ملنے کا وعدہ کیا
فُون کو بند کیا
مشرقی دیوتا بن کے گھر کو چلے
اور میں
گھر سے باہر کی اک دلرُبا کی طرح
اپنے ہونے نہ ہونے کی تکرار میں
خُود سے اُلجھی ہوئی
ہاتھ میں فُوں لیئے
اپنے کمرے میں آرام کُرسی پہ ساکت پڑی
خُود سے آنکھیں چُراتی سسکتی رہی
برف گرتی رہی

ثمینہ تبسُ

No comments:

Post a Comment