Saturday, 5 July 2014

بخشش !!!


میرے قدموں میں تارے تُم بچھا دو گے
یہ کہتے ہو

مُجھے تُم زیوروں سے لاد دو گے
یہ بتاتے ہو

کبھی اٹھکیلیاں کرتے ہو میری چُوڑہوں سے تُم
کبھی گجرے کی خُوشبُو سانس میں بھر کے
بڑی مدہوش سرگوشی میں یہ مُجھ کو بتاتے ہو
کی مُجھ سے پیار کرتے ہو
کی مُجھ سے عشق ہے تُم کو

میں ہنس کے ٹال جاتی ہوں 
مۃجھے معلوم ہے کہ رات اب ڈھلنے ہی والی ہے
ابھی سُورج نکلتے ہی
یہ سارے لفظ یون آنکھیں چُرا لیں گے
کہ میرے گھر کا ہر اک آئینہ مُجھ پہ ہنسے گا

مین دن کی روشی میں جب تُمہاری اور تکتی ہوں
تو ماتھے پہ پڑی شکنیں
نگاہوں کا یہ سناٹا
کٹیلے طنز میں ڈُوبےہوؤےنشتر
مُجھے حیران کرتے ہیں

مُجھے کُچھ بھی نہیں درکار تُم سے
کہ سونے اور چاندی کا
ستاروں کا
بہاروں کا
حسیں دُنیاؤں کا ہر راستہ معلوم ہے مُجھ کو

میں تُم سے بس یہی اک آس رکھتی ہوں
کہ میرے پاؤں کے نیچے جو دلدل ہے
اُسے اپنی بھروسے کی چٹانوں میں بدل ڈالو
مُجھے خود میرے قدموں پہ کھڑا رہنے عزت دو
کہ میں بھی مان سے اور فخر سے دۃنیا کو بتلا دوں
کہ تُم سے پیار کرتی ہوں
کہ تُم سے عشق ہے ہے مُجھ کو


ثمینہ تبسم۔

No comments:

Post a Comment