بہت سے سچ ہیں جن کے بیچ میں ششدر کھڑی ہوں
بہت سے جھوٹ چُن چُن کے
میں اپنے خوف کے ٹھنڈے بدن کو ڈھانپتی ہوں
میں اپنے جُرم کا اقرار کرتی ہوں
کوئی وعدہ نہیں تھا یہ
کہ میں سارے جہاں کے جُھوٹ اور سچ پہ کھڑے
رسموں رواجوں کو
کسی مذہب کی جھلنی میں
بہت اچھی طرح چھان و پھٹک کے فیصلہ کرتی
کوئی سودا نہیں تھا یہ
کہ اپنی ذات کو
میں آج اور کل کی کسوٹی پہ
کسا دکھنے کی خاہش میں
خُود اپنے آپ کو سُولی چڑھا دیتی
یہ کوئی نوکری ہرگز نہیں تھی
کہ جس میں ۔۔ میں کسی کوٹے یا اپنی عمر کی بنیاد پہ
عرضی دیئے جانے کا ایسے حوصلہ کرتی
یہ میرا خُود مُجھے
میرے حصار _ذات کے اندھے کُنویں سے
کھینچ کر لانے کا گویا اک بہانہ تھا
بیت سے امتحانوں سے گزر کے
میں پتھر بن چُکی تھی
میں بے حد تھک چُکی تھی
کی میں نے بس گھڑی بھر کو ٹھہرنے کی جسارت کی
وہ اک پھلدار
سایہ دار
ممتا کی گھنی چھاؤں کے جیسا
خُوبصُرت پیڑ
مُجھ سے کہہ رہا تھا
تُمہارے اس جنم کے
اس سفر کے
سارے رشتے
میری چھاؤں میں آکر ختم ہوں
یہ اج کا سب سے بڑا سچ ہے
مگر سچ یہ ہے کہ
اُس پیڑ کے سب پھل پرائے تھے
گھنی چھاؤں کے جیسا پیڑ بھی میرا نہیں تھا
میری ٹُوٹی ہوئی چُوڑی
میرے ماتھے کو زخمی کر چُکی ہے
میں تپتی دھوُپ میں
پگلا گئے کُچھ بادلوں کے
بھاپ بنتے پانیوں سے جل چُکی ہوں
یہ سارے سچ ہیں
جن کے بیچ میں شُشدر کھڑی ہوں
میں خُود کو ایک انساں جان کے
خُود پہ رحم کرنے کی مُجرم ہوں
میں اپنے جُرم کا اقرار کرتی ہوں
بہت سے جھوٹ چُن چُن کے
میں اپنے خوف کے ٹھنڈے بدن کو ڈھانپتی ہوں
میں اپنے جُرم کا اقرار کرتی ہوں
کوئی وعدہ نہیں تھا یہ
کہ میں سارے جہاں کے جُھوٹ اور سچ پہ کھڑے
رسموں رواجوں کو
کسی مذہب کی جھلنی میں
بہت اچھی طرح چھان و پھٹک کے فیصلہ کرتی
کوئی سودا نہیں تھا یہ
کہ اپنی ذات کو
میں آج اور کل کی کسوٹی پہ
کسا دکھنے کی خاہش میں
خُود اپنے آپ کو سُولی چڑھا دیتی
یہ کوئی نوکری ہرگز نہیں تھی
کہ جس میں ۔۔ میں کسی کوٹے یا اپنی عمر کی بنیاد پہ
عرضی دیئے جانے کا ایسے حوصلہ کرتی
یہ میرا خُود مُجھے
میرے حصار _ذات کے اندھے کُنویں سے
کھینچ کر لانے کا گویا اک بہانہ تھا
بیت سے امتحانوں سے گزر کے
میں پتھر بن چُکی تھی
میں بے حد تھک چُکی تھی
کی میں نے بس گھڑی بھر کو ٹھہرنے کی جسارت کی
وہ اک پھلدار
سایہ دار
ممتا کی گھنی چھاؤں کے جیسا
خُوبصُرت پیڑ
مُجھ سے کہہ رہا تھا
تُمہارے اس جنم کے
اس سفر کے
سارے رشتے
میری چھاؤں میں آکر ختم ہوں
یہ اج کا سب سے بڑا سچ ہے
مگر سچ یہ ہے کہ
اُس پیڑ کے سب پھل پرائے تھے
گھنی چھاؤں کے جیسا پیڑ بھی میرا نہیں تھا
میری ٹُوٹی ہوئی چُوڑی
میرے ماتھے کو زخمی کر چُکی ہے
میں تپتی دھوُپ میں
پگلا گئے کُچھ بادلوں کے
بھاپ بنتے پانیوں سے جل چُکی ہوں
یہ سارے سچ ہیں
جن کے بیچ میں شُشدر کھڑی ہوں
میں خُود کو ایک انساں جان کے
خُود پہ رحم کرنے کی مُجرم ہوں
میں اپنے جُرم کا اقرار کرتی ہوں
No comments:
Post a Comment