Tuesday, 24 June 2014
عفاف اظہر ۔۔۔۔ ایک بہادر عورت
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تُجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری
زندگی میں دو ہی گھڑیاں مُجھ پہ گُزری ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے، اک تیرے جانے کے بعد
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
اس کی آنکھوں کا تصور لے کر
بن پیئے یوں ہی بہکتے رہنا
کس لیئے دیکھتی ہو آیئنہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو
عشق، جوانی، حسن، نشہ، ہجرو وصال، نیلی آنکھیں، گلابی ہونٹ، نازُک اُنگلیاں۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین کریں۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کسی ایک کا ذکر بھی میں نہیں کرنے والی کیونکہ ّعفاف اظہر نے اپنی کتاب میں ایسا کُچھ نہیں لکھا۔
ان کی کتاب پڑھنے کے بعدمیں پُورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ آج عفاف سر اُٹھا کے بڑے اعتماد سے یہ دعوی کر سکتی ہیں کہ
اُسی پتھر پہ سر تانے کھڑی ہوں
مُجھے جس کے تلے دابا گیا تھا
***
عفاف کا دل محبت سے لبریز ہے مگر یہ مُحبت مست کر دینے والی نہیں بلکہ ساری مستی اُتار کے آپ کو سچ کی ایک ایسی پتھریلی پگڈنڈی پہ لا کھڑا کرتی ہے کہ آپ پسینہ پونچھتے رہ جاتے ہیں
***
انتظار کی گھڑیاں عفاف پہ بھی کٹھن گُزرتی ہیں مگر یہ محبوُب کے قدموں کی آہٹ نہیں بلکہ اُس نقارے کی مُنتظر ہیں جو انصاف کی اندھی اور بہری دیوی کے مُردہ جسم میں روح پھونک سکے
***
رنگ، خُوش بُوئییں اور مُسکراہٹیں انہیں بھی پسند ہیں مگر اس وقت جب وہ معصوم بچوں اور ماؤں کے چھہروں پہ نظر آتی ہیں اور زندگی زندہ لگتی ہے
***
چوکھٹ سے لگے نسوانی وجود انہیں بھی نظر آتے ہیں مگر اس وقت جب کسی خاندان کے اکلوتے کمانے والے کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دےا جاتا ہے اور گھر کی ماں ، بہنیں، اور بیٹیاں مدد کی آس پہ گھر کی چوکھٹ پہ آنکھیں بن کے بیٹھ جاتی ہیں
***
نازُک اُنگلیوں کا ذکر یہ بھی ضرور کرتی ہیں مگر اُس وقت جب ننھے ننھے ہاتھوں پہ رکھا کشکول ان کی انکھوں کی روشنی بجھا دیتا ہے ہا جب ننھے بچوں کو کارخانوں کی آہنی مشینوں کا ایندھن بنے دیکھتی ہیں
***
جذبوں، اُمنگوں اور خابوں سے بھرپور جواں لوگوں کا ذکر بھی کرتی ہیں ۔۔۔۔ اُسوقت جب ایک جوان حاملہ عورت کو اینٹئں مار مار کے سر _عام قتل کر دیا جاتا ہے کہ اس نے ایک عورت ہوتے ہوئے محبت کی شادی کرنے کی جراءت کی یا اُس وقت جب انسانی خدمت کے جذبے سے بھر پُور ایک جوان ڈاکٹر کو اُس کی فیملی کے سامنے گولیاں مار کے ختم کر دیا جاتا ہے کہ اُس کا تعلق ایک اقلییت سےتھا
***
حاظرین_ محفل ۔۔۔۔۔۔۔جب آپ حرز _ جاں ہویے ان خیالات کو پڑھنے بیٹھیں تو حفاظتی اقدامات ضرور کر لیں ورنہ آپ بھی فریاد کرتے نظر آئیں گے کہ
عجب تو یہ ہے کے کوشش ہمیشہ کرتی ہے
یہ زندگی ہی مُجھے مار ڈالنے کے لیئے
***
اپنے لوگوں اور انسانیت سے مُحبت کا جو احساس عفاف کے دل میں جڑیں پکڑ چُکا ہے وہ نا تو لکھنے والے کو کبھی چین سے بیٹھنے دے گا اور نا ہی پڑھنے والون کو۔۔۔ کئی جگہ غُصے کے مارے آپ کے کانوں سے دُھواں نکلے گا اور کئی جگہ آنکھوں سے آنسو ۔۔۔۔کتاب پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے عفاف کو میٹھے سے مُکمل پرہیز ہے ۔ کڑوی سچایئاں اور تلخ لہجہ کئ بار گلے میں ایسے پھنس جاتا ہی کہ سانس لینا مُشکل ہو جاتا ہے اور میرے جیسے میٹھے کے شوقین بلبلا اُٹھتے ہیں ۔ مانا کہ چینی صحت کے لیئے اچھی نہیں مگر میرے خیال میں سویٹنر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں
***
اگرچہ کتاب میں لکھی گئی کُچھ باتوں سے میں عفاف سے مُتفق نہیں مگر اس کے باوجود میں ان کے حوصلے اور بہادری کو سلام کرتی ہوں ۔ایک عورت اور خاص طور سے ایک پاکیستانی عورت ھونے کے ناطے مُعاشرے کے اُن ناسوروں کے بارے میں کُھل کر لکھنا جن کے بارے میں مرد بھی اپنے نفع نقصان کا اچھی طرح جایزہ لے کر بات کرتے ہیں ۔۔عفاف ہی کا خاصہ ہے
***
مائی ڈئر عفاف ۔۔۔۔۔۔ اپنے تنگ ذہنوں کی بند کھڑکیوں کے پیچھے کھڑے ہمارے لوگ ۔۔۔۔ چاہے مُجھے اور آپ جیسی عورتوں کو بُری عورتیں کہہ کے بُلاتے رہیں ۔۔۔۔۔آیئے ہم یہ وعدہ کریں کہ بے آوازوں کی آواز بن کے ۔۔۔۔۔۔ اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی خاطر۔۔۔۔۔ ہم اپنے مُعاشرے میں ہونے والی بُرائیوں کے خالاف ہم لکیں گے اور ہمیشہ لکھتے رہیں گے کیونکہ میرے خیال میں
دنیا میں کوئی اُس سا مُنافق نہیں قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
ثمینہ تبسم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment