Saturday, 7 June 2014

بارش


تیز گرتی چاندی سی
اس چمکتی چادر کو
سر سے پاؤں تک اوڑھے
ناچتی ہوں بارش میں
تم اگر یہاں ہوتے
ہر دفعہ کی طرح پھر
پہلے چیختے مجھ پہ
" کیا تمہیں مصیبت ہے
چین کیوں نہیں آتا
چیک کیا تھا ٹی وی پہ
اور کہا تھا بارش ہے
آج گھر پہ ہی رہنا
واک پہ نہیں جانا
پر تمہاری عادت ہے
میری تم نہیں سُنتیں
دیکھی اپنی حالت اب
سر سے پاؤں تک بھیگی
کانپتی ہو سردی سے
دانت مت نکالو اب
کپڑے بدلو جلدی سے "
تولیئے سے میرے پھر
بال خشک کرتے تم
میرا جسم سہلاتے
اور دھیرے دھیرے پھر
گرم گرم سانسوں سے
لہجہ دھیما پڑ جاتا
میرے گیلے کپڑوں میں
اپنے جسم کی گرمی
اس طرح ملا دیتے
پیاس سے مری مٹی
بارشوں کو پی کر پھر
جیسے جینے لگتی ہے
ہر دفعہ یہ ہوتا ہے
پہلے تم گرجتے ہو
اور پھر برستے ہو
کیا عجیب اگنی ہے
پانیوں سے لگتی ہے
پانیوں سے بُجھتی ہے


ثمینہ تبسم

No comments:

Post a Comment