Saturday, 7 June 2014

موسم


ٓآج موسم خراب ہے پھر سے
چُھٹی کر لو
کہیں نہ جاوُ آج
اُس کی آنکھوں میں ناچتی شوخی
مجھ کو پل میں اسیر کرتی ہے
رنگ اترتے ہیں جسم و جاں میں پھر
خواہشیں ناچتی ہیں انگ انگ میں
جِلوتیں خِلوتوں میں ڈھلنے کو
جسم کی پیاس سے پگھلتی ہیں
جاں نکلتی ہے دھیرے دھیرے یوں
شدتِ طلب آگ ہو جیسے
میرے بستر کی کوری چادر پہ
سلوٹوں کے گلاب کھلتے ہیں
دن گزرتا ہے ڈوبتے ترتے
کون کہتا ہے برف ٹھنڈی ہے؟

No comments:

Post a Comment