Saturday, 7 June 2014

آج دل اُداس ہے !!!

ایک عجیب خالی پن
بے قرار کرتا ہے
چاہتی ہوں کُچھ لکھوں
آج پر نہ جانے کیوں
لفظ گُونگے بہرے ہیں
سوچ۔۔۔۔سوچ میں گُم ہے
ایک کورے کاغذ پہ
بےشُمار گنجلک سی
جو لکیریں کھینچی ہیں
جانے کیوں یہ لگتا ہے
یہ کسی کی آنکھیں ہیں
یاد کی کوئی کھڑکی
آدھ کُھلی سی لگتی ہے
اور آج یہ انکھیں
اُس پہ آن چپکی ہیں
دیکھتی ہیں یُوں مُجھ کو
جیسے کوئی شکوہ ہو
کیا بھلا ہوا ہو گا?
کیا کہا سُنا ہو گا?
اشک بھی گرے ہونگے
پیار مر گیا ہو گا
مرنے والے جذبے کی
نیم وا کُھلی آنکھیں
موسم_بہاراں میں
ہر شجر پہ اُگتی ہیں
سُوئیوں کی صُورت میں
اُنگلیؤں پہ چُیبھتی ہیں
آہ کے تعاقُب میں
ایک خُون کا قطرہ
کُچھ گُلاب لمحوں کی
یاد بھی دلاتا ہے
اور ہنس کے کہتا ہے
پنسلوں کی نوکوں سے
یاد کو کھرُچنے پہ
سانس رُکنے لگتی ہے
لفظ مرنے لگتے ہیں
کاغذوں سے مت کھیلو
لفظ ڈھانپ کر رکھو

بس اسی لیئے میں نے
آج کُچھ نہیں لکھا
آج کُچھ نہیں لکھا

ثمینہ تبسم

No comments:

Post a Comment