Saturday, 7 June 2014

بہشتی زیور !!!


‘‘ اگر چاہو گی تو ہو گا
جو تم چاہو گی وہ ہو گا "

بھلا یہ سب کسی نے کب کہاں پُوچھا تھا مُجھ سے
میں غرقاب۔طلسم۔عشق و مستی
مسام۔جاں میں اُٹھتی ایک برفیلی سی خاہش
آگ میں تبدیل ہوتی دیکھتی اور سوچتی ہوں
وہ میرا مرد
جس پہ اپنی کچی عمر کی کلیاں نچھاور کیں
وہ آدھی رات کو مجھ کو جگاتا تھا
"اُٹھو۔۔۔۔۔۔ مُجھ کو ضرورت ہے "
تو میں بستر کی چادر کی طرح چُپ چاپ اُس کو اُوڑھ لیتی تھی
کہ وقت۔رُخصتی مُجھ کو
میری خالا یا پُھوپھی نے کتاب۔ خاص سے پڑھ کے سُنایا تھا
کہ " شوہر جو کہے
جب بھی کہے
جیسا کہے حق ہے
وگرنہ رات بھر تم پہ فرشتے لعنتیں بھیجیں گے
تم دوزخ میں جاؤ گی "
تو اس موہُوم سی دوزخ نے جیون بھر
مجھے میرے جہنم میں جلایا تھا

تو اب میں اس کے سینے میں دھڑکتے دل دل کو سُنتی ہوں
وہ اتنے پاس ہے کہ اُس کی خُوشبو سے
میرے سانسوں میں اک رنگین سا گرداب اُٹھتا ہے
میں اُس کی سُرمئی آنکھوں میں جو لکھا ہے پڑھتی ہوں
یہ وہ تحریر ہے جو میرے پتھریلے بدن میں چُھپ کے بیٹھی ہے
میں چاہتی ہوں اُسے کہہ دوں
کہ وہ مُجھ کو فتح کر لے
میں جس دُنیا سے آئی ہوں
وہاں تسکین بس مردوں کی ہوتی ہے

 ثمینہ تبسم

No comments:

Post a Comment