Thursday, 19 June 2014

اندیشہء افعی !!!

میں عورت ہوں
میں ڈرتی ہوں
مرے رستے میں کتنے خُوشنُما رنگوں کے سانپوں کا بسیرا ہے
ہوس کے ناگ
اپنی ذات کے پتھر کے نیچے کُنڈلی مارے
کہیں پہ بے حسی کی اوٹ میں بیٹھے
کہیں پہ برگُزیدہ سانپ زہر _ پارسائی سے بھرے
کسی لمس _ جُنوں انگیز کی چاہت میں ڈُوبے اُونگتے ہیں
میں حیراں ہوں کہ ان میں اس طرح کے اژدھے بھی ہیں
جو اپنی عُمر کی ڈھلوان سے نیچے لُڑھک کر
موت کے پاتال میں گرنے ہی والے ھیں
ہوس کے ناگ مُجھ کو دیکھ کر پُھنکارتے ہیں
پھر اس دام _ ہوس کو خُوبصورت لفظ دیتے ہیں
اور ان لفظوں کے جادُو کو وہ مُجھ پہ پُھونک دیتے ہیں
میں دل ہی دل میں پھر رد _ بلا کا اسم دھراتی
تمنا کی گُزرگاہوں سے بچ کے چلتی ریتی ہوں
کسی ناگُفتہ خاہش کی پٹاری میں پڑے پھنیئر
مُجھے تکتے ہیں جب بھی ٹکٹکی باندھے
تو اب میں ان کی پلکوں سے تہی آنکھوں میں اک عیار خاہش دیکھ لیتی ہوں
کہ اب میں ان کی بےتابی کے پیچ و خم سمجھتی ہوں
میں سُن سکتی ہوں ہر آہٹ کو
ان کی سر سراہٹ کو
مُجھے ان کا کوئی ہمزاد پہلے ڈس چُکا ہے
بس چُکا ہے زہر جسکا میری نس نس میں
کبھی مُجھ کو نواح - جسم میں پھیلی خضر آثار تنہائی ستائے
ہا کبھی جادُو بھرے الفاظ پہ مُجھ کو
مُحبت کا گُماں سا ہو
تو میں ان زرد ہاتھوں
اور اپنے نیلگُوں ہونٹوں کو پھر سے دیکھ لیتی ہوں
میں عورت ہوں
میں ڈرتی ہوں
ثمینہ تبسم

No comments:

Post a Comment