Saturday, 7 June 2014

انسانیت کی موت !!!


وُسعتوں کی آرزو میں
زندگی کو تیز تر کرنے کی خاہش میں
ہماری رُوح کی قوس و قزح کے رنگ مرتے جا رہے ہیں
کہ اب تخلیق کے کسی ایک مرحلے پہ
احساس کی کوئی گرہ ہے
جو کستی جا رہی ہے
محبت نام کا اک قطرہء حیات ہے
جو اُونچے آدرشوں کے سائے میں نمُو نہیں پاتا
ہم نے دل دھرتی کے چاروں جانب
ہوس کی کُچھ ایسی غیر مرئی دیواریں تعمیر کی ہیں
جن کے سائے میں دب کر
انسانیت کا وہ رنگ
جو وجہء تخلیق_ کائنات تھا
جو ترکیب_ نسل_انسانی کا بنیادی عُنصر تھا
ہماری خاہشوں کی بھینٹ چڑھ کر
خود اپنی موت مرتا جا رہا ہے
احساس کی کوئی گرہ ہے
جو کستی جا رہی ہے
انسانیت مر رہی ہے

ثمینہ تبسم

No comments:

Post a Comment