انسانیت کی موت !!!
وُسعتوں کی آرزو میںزندگی کو تیز تر کرنے کی خاہش میںہماری رُوح کی قوس و قزح کے رنگ مرتے جا رہے ہیںکہ اب تخلیق کے کسی ایک مرحلے پہاحساس کی کوئی گرہ ہےجو کستی جا رہی ہےمحبت نام کا اک قطرہء حیات ہےجو اُونچے آدرشوں کے سائے میں نمُو نہیں پاتا
ہم نے دل دھرتی کے چاروں جانب
ہوس کی کُچھ ایسی غیر مرئی دیواریں تعمیر کی ہیں
جن کے سائے میں دب کر
انسانیت کا وہ رنگ
جو وجہء تخلیق_ کائنات تھا
جو ترکیب_ نسل_انسانی کا بنیادی عُنصر تھا
ہماری خاہشوں کی بھینٹ چڑھ کر
خود اپنی موت مرتا جا رہا ہے
احساس کی کوئی گرہ ہے
جو کستی جا رہی ہے
انسانیت مر رہی ہے
ثمینہ تبسم
No comments:
Post a Comment