بڑا ہی تلملاتی تھی
بہت ہی بُڑبڑاتی تھی
کسی چُھٹی سے پہلی شام
مغرب پڑھ کے گھر آتے تو کہتے تھے
" او کڑئیے کل ذرا میرے پلنگ دی نوار تؤ کے کے فیئر بُنڑ دیئیں "
( کل میرے پلنگ کی نوار دھو کے پھر سے پلنگ بُن دینا )
بہت ہی بُڑبڑاتی تھی
کسی چُھٹی سے پہلی شام
مغرب پڑھ کے گھر آتے تو کہتے تھے
" او کڑئیے کل ذرا میرے پلنگ دی نوار تؤ کے کے فیئر بُنڑ دیئیں "
( کل میرے پلنگ کی نوار دھو کے پھر سے پلنگ بُن دینا )
میں اپنا سر پکڑ کے بیٹھ جاتی تھی
میرے ابا جی کھانا کھا کے
خود تو شام کی تازہ ہوا میں سیر کرنے کو نکل جاتے
میری لمبی دہاڑی کا تبھی آغاز ہو جاتا
میں صُوفی سوپ کی دو تین ٹکیاں کاٹ کے رکھتی
کہ تڑکے جب پلنگ کو کھول کے
اس کی نواریں دھوؤں تو پھر دیر نہ ہو
شام تک اس کے سکھانے اور پھر اُس کے بنانے میں
میرے ابا جی کھانا کھا کے
خود تو شام کی تازہ ہوا میں سیر کرنے کو نکل جاتے
میری لمبی دہاڑی کا تبھی آغاز ہو جاتا
میں صُوفی سوپ کی دو تین ٹکیاں کاٹ کے رکھتی
کہ تڑکے جب پلنگ کو کھول کے
اس کی نواریں دھوؤں تو پھر دیر نہ ہو
شام تک اس کے سکھانے اور پھر اُس کے بنانے میں
رنگیلے بھاری پایئوں سے سجے اس بیڈ کی اپنی اک کہانی تھی
ہرے اور سُرخ اور کالے پرندے، پُھول اور پتیاں سجے
پایئوں کے سر اور پاؤں کی جانب
کسی گہری سیاہ لکڑی کے پیچیدہ ڈیزائن کے تکونے چوکھٹوں میں
بڑے بھاری سے پیتل کے کئی گھنٹی نُما گھنگرو لٹکتے تھے
سرہانے کی طرف اک آئینہ
جو اب نجانے کتنی صدیاں سہہ کےاندھا ہو گیا تھا
کسی خاموش افسانے کا اک کردار لگتا تھا
ہرے اور سُرخ اور کالے پرندے، پُھول اور پتیاں سجے
پایئوں کے سر اور پاؤں کی جانب
کسی گہری سیاہ لکڑی کے پیچیدہ ڈیزائن کے تکونے چوکھٹوں میں
بڑے بھاری سے پیتل کے کئی گھنٹی نُما گھنگرو لٹکتے تھے
سرہانے کی طرف اک آئینہ
جو اب نجانے کتنی صدیاں سہہ کےاندھا ہو گیا تھا
کسی خاموش افسانے کا اک کردار لگتا تھا
فجر پڑھ کے وہ گھر آتے
ضیائے حرم کا کوئی رسالہ لے کے
آنگن میں پڑی آرام کُرسی
استراحت کا شرف پا کر
ذرا کُچھ چوں چراں کرتی
مگر خاموش ہو جاتی
ضیائے حرم کا کوئی رسالہ لے کے
آنگن میں پڑی آرام کُرسی
استراحت کا شرف پا کر
ذرا کُچھ چوں چراں کرتی
مگر خاموش ہو جاتی
اور اُس کے بعد امی جی مُجھے آواز دیتیں
"ثمینہ ۔۔ اُٹھ بھی جاؤ۔۔۔۔ پانی بند ہونے سے پہلے کام کرنا ھے "
ثمینہ میں کہاں ہمت تھی یہ نعرہ لگانے کی کہ
" امی آج چُھٹی ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو بس صُبح کے چھ بجے ہیں ماں "
مگر یہ بے دلی کُچھ اولیں گھڑیوں کا حصہ تھی
پھر اس کے بعد
میں ساری نواریں کھول کے
اُن کو اُبلتے پانیئؤں میں ڈال کے دھوتی
دیواروں پہ پھیلاتی
سُوکھنے کی مُنتظر رہتی
پلنگ کی ہلتی چُولوں میں مشینی تیل بھرتی
اور اس کے ایک اک حصے کو گیلے نرم کپڑے سے
بڑی چاہت سے چمکاتی
وہ پیتل کے کئی گھنٹی نُما گُھنگھرو
کسی دُھوپوں میں پھرتے سانولے چہرے کی طرح سے چمک جاتے
"ثمینہ ۔۔ اُٹھ بھی جاؤ۔۔۔۔ پانی بند ہونے سے پہلے کام کرنا ھے "
ثمینہ میں کہاں ہمت تھی یہ نعرہ لگانے کی کہ
" امی آج چُھٹی ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو بس صُبح کے چھ بجے ہیں ماں "
مگر یہ بے دلی کُچھ اولیں گھڑیوں کا حصہ تھی
پھر اس کے بعد
میں ساری نواریں کھول کے
اُن کو اُبلتے پانیئؤں میں ڈال کے دھوتی
دیواروں پہ پھیلاتی
سُوکھنے کی مُنتظر رہتی
پلنگ کی ہلتی چُولوں میں مشینی تیل بھرتی
اور اس کے ایک اک حصے کو گیلے نرم کپڑے سے
بڑی چاہت سے چمکاتی
وہ پیتل کے کئی گھنٹی نُما گُھنگھرو
کسی دُھوپوں میں پھرتے سانولے چہرے کی طرح سے چمک جاتے
پتہ نئیں کیوں
بڑا اچھا لگا کرتا تھا
جب میں چوکڑی مارے
زمیں پہ بیٹھ کے اُن گُھنگھرؤں سے بات کرتی تھی
بڑا اچھا لگا کرتا تھا
جب میں چوکڑی مارے
زمیں پہ بیٹھ کے اُن گُھنگھرؤں سے بات کرتی تھی
تو اس سارے عمل کے درمیاں
ابا جی کُرسی پہ بڑے آرام سے جُھولے لیا کرتے
کبھی آواز دیتے
" کُڑیئے پاڑیں لے کے آ " یا " دُدھ پتی بنا کے دے "
( پانی لا کر دو ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ دُودھ پتی بنا کے لاؤ )
" ابھی آتی ہوں ابُو جی "
میں پہلے بھاگ کے
اپنا دوپٹہ لےکہ سر کو اورسینے کو بہت اچھی طرح ڈھکتی
پھر اپنے ہاتھ دھو کر
سر جُھکا کے اُن کی خدمت میں کھڑی ہوتی
ابا جی کُرسی پہ بڑے آرام سے جُھولے لیا کرتے
کبھی آواز دیتے
" کُڑیئے پاڑیں لے کے آ " یا " دُدھ پتی بنا کے دے "
( پانی لا کر دو ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ دُودھ پتی بنا کے لاؤ )
" ابھی آتی ہوں ابُو جی "
میں پہلے بھاگ کے
اپنا دوپٹہ لےکہ سر کو اورسینے کو بہت اچھی طرح ڈھکتی
پھر اپنے ہاتھ دھو کر
سر جُھکا کے اُن کی خدمت میں کھڑی ہوتی
کسی بھی اک ذرا سی بات پہ جھڑکی یا کوئی ڈانٹ سُنتی
کبھی کہتے
" اے پاڑیں بوت ٹھنڈا اے " یا " ٹھنڈا کیوں نیئں اے "
( پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ تھنڈا نہیں ہے )
یا پھر کہتے
" تُوں بُڈی او گیئ ایں پر اجے وی چاء نئیں آوندی بناڑیں "
( تُم بُڈھی ہو گئی ہو مگر ابھی تک چائے بنانی نہیں آئی )
اگر وہ کُچھ نہیں کہتے
تو ابا جی نیئں لگتے تھے
کبھی کہتے
" اے پاڑیں بوت ٹھنڈا اے " یا " ٹھنڈا کیوں نیئں اے "
( پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ تھنڈا نہیں ہے )
یا پھر کہتے
" تُوں بُڈی او گیئ ایں پر اجے وی چاء نئیں آوندی بناڑیں "
( تُم بُڈھی ہو گئی ہو مگر ابھی تک چائے بنانی نہیں آئی )
اگر وہ کُچھ نہیں کہتے
تو ابا جی نیئں لگتے تھے
نواریں سُوکھتیں
گولے بناتی
میں اور امی مل کے اُس شاہی پلنگ کو پھر سے بُنتے
گولے بناتی
میں اور امی مل کے اُس شاہی پلنگ کو پھر سے بُنتے
عصر پڑھ کے وہ گھر آتے
اور اپنے اُونچے پائیوں سے سجے بستر پہ ہوں تشریف رکھتے
جسطرح فوجی ہمارے مُلک کی گدی پہ اپنا حق سمجھتے ہیں
میرے ابا جی فوجی تھے
بڑے ہی سخت بندے تھے
مگر پھر بھی میں اُن سے پیار کرتی تھی
مگر اے کاش کہہ دیتی
کبھی تو اُن سے کہہ دیتی
اور اپنے اُونچے پائیوں سے سجے بستر پہ ہوں تشریف رکھتے
جسطرح فوجی ہمارے مُلک کی گدی پہ اپنا حق سمجھتے ہیں
میرے ابا جی فوجی تھے
بڑے ہی سخت بندے تھے
مگر پھر بھی میں اُن سے پیار کرتی تھی
مگر اے کاش کہہ دیتی
کبھی تو اُن سے کہہ دیتی
ثمینہ تبسم
No comments:
Post a Comment