Saturday, 7 June 2014
کُھلا خط !!!
میرے بچو
میرے بس میں نہیں کہ میں
تُمہارے میلے ُکُچیلے ہاتھوں کو
اپنے ہاتھوں سے دھوتی
اور اُنہیں چُوم کر
اپنی دُکھی آنکھوں پہ رکھ لیتی
تمہارے پژمُردہ چہروں پہ
اس نا انصاف نظام نے
جو تھکن رکھ دی ہے
اُس پہ ابنی ممتا نچھاور کر سکتی
تُمہارے دُھول مٹی سے اٹے بالوں کو
اپنے آنسوؤں سے دھو سکتی
تُمہارے گرد آلود پیروں کے نیچے
اپنا دل نکال کے رکھ دیتی
میرے بس میں نہیں میرے بچو
کہ میں اس دُنیا کو بدل سکتی
مگر یاد رکھو
روٹی کا ہر نوالہ
جو میرے حلق سےاُترتاہے
وہ تُمہارے آنسوؤں سے نمکین ہوتا ہے
اور میں کُوڑے کےڈھیر پہ پڑی ہوئ
روٹی کا ہر ٹکڑا اُٹھا کر
اس طرح اپنی انکھوں سے لگا لیتی ہوں
کہ جیسے
ایک ماں کو
اُس کا کھویا ہُوا بجہ واپس جائے
میرے مزدور بچو
میری محبت تُمہارے نام
اور تمہاری جُرات کو میرا سلام
تمہاری مزدور ماں
ثمینہ تبسم
Labels:
Urdu Poems
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment