Wednesday, 18 June 2014

رُتبہ !!!


اُسے کم زور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
اُسے تقدیر کی گردش نے جب گردش میں ڈالا ہے
ہر اک مُشکل کو سر کر کے
خُود اپنےپاؤں پہ چل کے
ہر اک طُوفاں سے نکلی ہے
وہ غم کے ساحلوں سے سییپیاں چُنتی ہے خُوشیوں کی
وہ دُکھ کے بادلوں میں سائباں بن کے اُبھرتی ہے
اُسے کمزور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
دکھاؤ مت اُسے تُم خواب جنت کی بہاروں کے
ڈراؤ مت اُسے تُم ذکر کر کر کے جہنُم کا
اُسے خُود خالق ـ تقدیر نے تخلیق کے فن سے نوازہ ہے
وہ دامن میں لیئے پھرتی ہے اس دُنیا قسمت کو
وہ اپنے نرم آنچل میں پناہ دیتی ہے نسلوں کو
اُسے کمزور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں کہ جب رسمُوں رواجوں کے
بھییانک ناگ اُس کو خُوں رُلاتے تھے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں کہ جب کردار پہ تہمت لگا کے
تُم اُسے اُس کی نگاہوں سے گراتے تھے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں کہ سمجھوتے کی چادر میں لپیٹی کاٹھ کی پُتلی سمجھ کے
تُم اُسے اپنے اشاروں پہ نچاتے تھے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں
وہ اپنے عزم و ہمت سے
اب اپنی راہ میں حاہل انا کے بُت گرا دے گی
وہ بے نام و نشاں رستوں کو سنگ ـ میل کردے گی
اُسے کمزور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
ثمینہ تبسم

1 comment: