Saturday, 7 June 2014
ہوم لیس !!!
نہ جانے کونسے احساس کا مارا ہوا ہے
نہ جانے نفرتوں کی کونسی منزل کا راہی ہے
نہ جانے کونسے آسیب تھے وہ
جن سے ڈر کے
نہ جانے کون وحشی خواب تھے
جن کو جھٹک کے
وہ یوں اک دم اکیلا ہو گیا ہے
کوئی تو خون کا رشتہ
کوئی پہچان تو ہوگی
کوئی مٹی کوئی پانی
کوئی زنجیر تو ہو گی
کبھی تو بھاگتے لمحوں میں
کوئی خاب سا لمحہ
کبھی تو ان گنت لفظوں میں
کوئی لفظ میٹھا سا
کبھی تو کھلکھلاتے قہقہوں میں
ہنسی کا ایک جھرنا سا
کبھی تو گیت چاہت کا
محبت کا کو ئی وعدہ
اُسے بھی روکتا ہو گا
اُسے بھی پُوچھتا ہوگا
کہ آخر کیا ہے ?
جس کو پا کے اُس نے
زمانے بھر کو یُوں ٹُھکرا دیا ہے
وہ گھر کی چار دیواری سے باہر
بہت مصروف سڑکوں کے کنارے
برستی بارشوں میں
اور برفانی طُوفانوں میں
سلیپنگ بیگ میں سُکڑا پڑا ہے
وہ آخر کونسے احساس کا مارا ہوا ہے
وہ آخر نفرتوں کی کونسی منزل کا راہی ہے ?
ثمینہ تبسم
Labels:
Urdu Poems
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment