Tuesday, 17 June 2014

نئ کل !!!

بہت دن ہو گئے تُم نے
نئ کل پہ نہیں لکھا
تو اب لکھو
اور اس سے پیشتر کہ ان لکھے لفظوں کی دلدل میں
تُمہاری سوچ دھنس جائے
خُدارا کُچھ نیا لکھو
وہ ہنستے اور گاتے لفظ
جو مل کر خُوشی تخلیق کرتے ہیں
کسی معصُوم سے بچے کی آنکھوں میں شرارت سے چمکتے لفظ تُم لکھو
خُدارا زندگی دو
وقت کے اندھے کُوئیں میں کھو گئے اُن سبز لفظوں کو
جو اس کائی زدہ دُنیا میں اُمیدیں کھلاتے تھے
جو خُوشبو تھے
بہاریں تھے
جو نغمے تھے
فسانے تھے
وہ سارے لفظ جن کو سوچ کے خالق نے یہ دُنیا بنائی تھی
وہ سارے لفظ جی اُٹھنے کی خاہش میں
تُمہیں حسرت سے تکتے ہیں
خُدارا اُن کو جیون دو
نئی کل پہ نیا لکھو
میں لکھوں گی
میرے عرفان
ساری بات لکھوں گی
وہ سارے لفظ چاہت کے
شرارت کے
خُوشی کے
پیار کے
معصُومیت کے لفظ لکھوں گی
ذرا کُچھ دن ٹھہر جاؤ
کتاب ـ زندگی کے جو صفحے میں پڑھ رہی ہوں
وہاں جو لفظ ہیں
کڑوے کسیلے ہیں
وہاں پہ بھُوک ہے
جبر ـ مُسلسل ہے
غُلامی ہے
جہالت ہے
تشدُد ہے
وہ سارے لفظ جو ہونٹوں سے پیلی زرد نفرت بن کے بہتے ہیں
میں اُن خُود غرض لوگوں کے جہاں میں جی رہی ہوں جو
فقط اپنے لیئے جیتے ہیں
اپنا پیٹ بھرتے ہیں
مُجھے نظریں اُٹھانے, سوچنے, کُچھ بولنے کا حق نہیں ہے
جہاں اشراف کا اک بُت بنا کر وقت کی دہلیز پہ گاڑا گیا ہے
جہاں ہر سوچ پہ مذہب نے جالے تان رکھے ہیں
وہاں جو لفظ لکھے ہیں
وہ تنگ ذہنوں کی چھوٹی سوچ پہ ماتم کناں ہیں
گھڑی بھر کو ٹھر جاؤ
کہ نیلے آسماں کی الوہی وُسعت میں کوئی معجزاتی گیت گایا جا رہا ہے
میری تاریک سوچوں کی بہت سُنسان پگڈنڈیوں پہ اب جُگنُو جمکتے ہیں
میرے بچے جہالت کے جہنُم سے نکل آنے ہی والے ہیں
میرے لوگوں نے اب طوق ـ غُلامی توڑ ڈالا ہے
میری آنکھیں حسیں قوس و قزح کے سات رنگوں سے ذرا مانُوس ہو جایئں
تو لکھوں گی
نئی کل پہ بھی لکھوں گی
ثمینہ تبسُم

No comments:

Post a Comment