Sunday, 29 June 2014
سوال نامے !!!
ہم اپنے اپنے سوالنامے لےئے کھڑے ہیں ہم اپنے مجرم بھی اپنے منصف بھی خود ہو ےٗ ہیں ہمارے اندر ہی جھوٹی سچی عدالتیں ہیںنہ جانے کب سے ہم اپنی تقدیر کا نوشتہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے ہیںنہ جانے کب سے ہم اپنی ہی آستینوں میں پل رہے ہیںکوئی وہ دن تھے امین تھے ہمسفیر تھے ہمپیامبر تھےمحبتوں کےصداقتوں کے
کوئی وہ دن تھےکہ دجلہ و کربلا کے پانیہمارے ایثار کی داستانیںجہان بھرکو سنا رہے تھےکوئی وہ دن تھےشہادتوں کے عظیم درجےہماری سوچوں کی طاقتوں سے عظیم تر تھے
کوئی یہ دن کہخود اپنے گھر میں سوائے قبروں کے ہم نے کچھ بھی نہیں بنایاہماری ذاتیںہمارے فرقےہماری گلیاںہماری سڑکیںعدالتیںاور سکول سارےہمارے منبر امام باڑ ےہمارے ہی خون سے تر بتر ہیں چہار جانب سے تک رہی ہیں ہمیں وہ آنکھیںجو اپنے چہروں سے گر گئی ہیںوہ مردہ آنکھیںہمارے پل پل پہ نوحہ خواں ہیں
اور اب یہ ہم کہخدائے قہر و جبار بن کےخود اپنی نسلیں مٹا رہے ہیںکوئی بھی مذہبکوئی بھی قانوںکوئی بھی دھرتیکوئی بھی رشتہہمارے شر سے بچا نہیں ہےکہاں کی دوزخ کہاں کی جنتکہاں قیامتکہاں خدا ہے
ہم اپنے اپنے سوالنامے لیے کھڑے ہیںثمینہ تبسم
Labels:
Urdu Poems
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment