Saturday, 7 June 2014

بے بی سٹر !!!


کہاں سے میں کہاں پہ آگئی ہوں
میں کیا تھی
اور اب کیا ہو گئی ہوں

بہت پہلے یہ سوچا تھا
کہ اب تک میں اکیلے ہی صبح سے شام تک ہر کام کرتی ہوں
میرے بچے بڑے ہوں گے تو سکھ کا سانس لوں گی میں
ذرا فُرصت ملے تو اپنے سارے شوق جو اب تک
میرے کاموں کی چکی میں سدا کُچلے گئے
پُورے کروں گی

وہ اچھی خُوشبوئیں برتُوں گی جو کب سے درازوں میں پڑی ہیں
وہ کارڈوں پہ لئے زیور جو لاکر میں پڑے سالوں سے میری راہ تکتے ہیں
وہ میرے قیمتی جُوتے، سویٹر، بیگ اور شالیں
سبھی ہر روز میں پہنا کروں گی

بہت پہلے یہ سوچا تھا
میرا چھوٹا سا گھر ہو گا
میں اپنے گھر کے آنگن کو حسیں پُھولوں سے بھر دوں گی
چنبیلی، موتیئے اور موگرے کے پُھول مہکیں گے
میرے سونے کے کمرے کی کُھلی کھڑکی کے ماتھے پہ رُوپہلا چاند دمکے کا
تو میں اور چاندنی سر جوڑ کے گھنٹوں ہمارے چاند کی باتیں کریں گے

بہت پہلے یہ سوچا تھا
میرے پڑھنے کے کمرے میں کتابوں سے بھری الماریاں ہوں گی
روزانہ شام کو جب سیر سے لوٹوں گی تو اچھی سی موسیقی لگا کر
دیر تک پڑھتی رہوں گی
کبھی اپنی جوانی کے دنوں کی کچھ بُنی کچھ ادھ بُنی یادوں کی چادر اُوڑھ کر آرام کُرسی پہ پڑی جُھولا کروںگی

بہت پہلے یہ سوچا تھا

اچانک ہی
میرے منجھلے نواسے نے
بڑے بیٹے کی چھوٹی سے بڑی بیٹی کو دھکا دے کے بستر سے گرایا تو
تھکن اور خامشی کی گہری نیلی دُھند میں چُپکا پڑا کمرہ
کبھی نانو کبھی دادو کی ہاہا کار سے گھبرا کے جاگ آٹھا

گھڑی کی گود میں بیٹھی ہوئی چڑیابھی آدھی رات کی بیچین گھڑیوں پہ بلک اُٹھی
میں اپنے خاب سے خابوں کی پگڈنڈی پہ سر پٹ دوڑتی
اُس دائرے میں آ گری
جس سے نکالنے کا کوئی رستہ نہیں ملتا

میری بھیگی ہوئی نظریں
میرے ٹوٹے ہوئے میلے کچیلے ناخُنوں پہ ترس کھاتی ہیں
میں اپنے ملگجے آنچل سے اُن کو ڈھانپ لیتی ہوں

کہاں سے میں
کہاں پہ آگئی ہوں
میں کیا تھی
اور اب کیا ہو گئی ہوں
--
Samina Tabassum

1 comment: