Monday, 30 June 2014

یکم جُولائی !!!


وہ سارے قصے جو مذہب مُجھے سُناتا تھا
وہ سب سبق جو کتابیں مُجھے پڑھاتی تھیں
وہ زندگی جسے جینے کا حق سبھی کو ہے
وہ سارے سچ ہیں مُجسم میرے کنیڈا میں
ہر اک کو چھت بھی مُیسر ہے روٹی کپڑا بھی
یہاں پہ بُوڑھوں کو سارے حقُوق ملتے ہیں
یہاں پہ عورتوں بچوں کی جاں سلامت ہے
یہاں پہ راتوں کو دُنیا سکوں سے سوتی ہے
یہ وہ جہاں ہے جہاں رہنے والے لوگوں کو
کسی کے رنگ نسل خُوں سے کوئی مسلئہ نہیں
یہاں کے لوگ مذاہب کو گھر پہ رکھتے ہیں
یہاں پہ کوئی جہنُم نہیں نہ کافر ہیں
ہر اک کے واسطے سب ایک سا یہاں پہ ہے
کہ سارے سچ ہیں مُجسم میرے کنیڈا میں
یوم ـ آزادی مُبارک کنیڈا
ثمینہ تبسم

افطاری مُبارک !!!

وہاں ٹی وی کے نیچے
کسقدر سہما پڑا ہے
دکھاوا بن گیا ہے
کمرشل ہو گیا ہے
میرا معصُوم سا روزہ
کہاں روزہ رہا ہے
ثمینہ تبسم

Sunday, 29 June 2014

مُجھے اچھا نہیں لگتا !!!


یہ سب کُچھ جو بدلتا جا رہا ہے
یہ سب کُچھ جو میری سوچوں سےبالکل مُختلف ہے
یہ سب کُچھ جو میری قُدرت سے باہر ہے
مُجھے اچھا نہیں لگتا

ابھی کل تک
میرے بچے
میرے ہاتھوں سے کھاتے تھے
میری اُنگلی پکڑ کر پاؤں رکھتے اور اُٹھاتے تھے
وہ سب کُچھ سیکھتے تھے جو بھی میں اُن کو سکھاتی تھی
جہاں بھر میں
میں ۔۔۔ اُن کی ماں
سبھوں سے عقل میں
رُتبے میں
ہر رشتے سے بڑھ کے تھی
وہ مُجھ پہ ناز کرتے تھے
میری آنکھوں میں احساس _ تشکُر کے حسیں موتی چمکتے
اور دُنیا
ایک جننت سی لگا کرتی

مگر
اب سب بدلتا جا رہا ہے
مُجھے لگتا ہے
جیسے میں
جو کل تک گھر کی پنچایئت میں اک پردھان جیسی تھی
نہ جانے کس طرح
بہتے سمعے کے ساتھ
گھر کی ڈیوڑھی کے تنگ اور تاریک کونے میں بچھی
ٹُوٹی ہوئی اک چارپائی پہ
خُود اپنے سر کی چادر کا سرہانہ رکھ کے لیٹی
ایک بُڑھیا بن گئی ہوں
جو ہر آئے گئے سے بات کرنے کا بہانہ ڈُھونڈتی ہے
وہ بُڑھیا
جس کے پیروں کے تلے
جیون کی بھیگی ریت اب تھوڑی ہی باقی ہے
وہ بُڑھیا
جس کے کھچڑی سر پہ
اُن خابوں کی ٹھنڈی راکھ بکھری ہے
جو گُزرے وقت کے مُردار خانے میں
نہ جانے کب سے دفنائے گئے ہیں
وہ بُڑھیا
جس کے رعشے سے لرزتے ہاتھ میں اب تک
گئے وقتوں کا چابُک ہے
وہ اس چابُک سے
اپنے آنے والے کل کی وحشت کو ڈراتی ہے

وہ بُڑھیا میں ہوں
اور میرے
بہت معصوم سے
سیدھے سے بچے
اب ۔۔۔ بدلتے جا رہے ہیں
میں کُچھ بولوں
بڑے انداز سے کندھے جھٹک کر " آئی نو " کہتے
کبھی کالی
کبھی نیلی ہری آنکھوں سے
مُجھ کو دیکھ کر وہ مُسکراتے ہیں
میں کانوں پہ لگے ہیڈفُون
آنکھوں میں سجے لینزز کے پیچھے
اپنے بچے ڈھونڈتی ہوں
تو بچے مُجھ پہ ہنستے ہیں
میرے بچے
بڑے ہو کر
مُجھے بچہ سمجھتے ہیں
مُجھے اچھا نہیں لگتا

مُجھے اچھا نہیں لگتا
یہ سب کُچھ جو بدلتا جا رہا ہے

ثمینہ تبسم

سوال نامے !!!


ہم اپنے اپنے سوالنامے لےئے کھڑے ہیں ہم اپنے مجرم بھی اپنے منصف بھی خود ہو ےٗ ہیں ہمارے اندر ہی جھوٹی سچی عدالتیں ہیںنہ جانے کب سے ہم اپنی تقدیر کا نوشتہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے ہیںنہ جانے کب سے ہم اپنی ہی آستینوں میں پل رہے ہیںکوئی وہ دن تھے امین تھے ہمسفیر تھے ہمپیامبر تھےمحبتوں کےصداقتوں کے
کوئی وہ دن تھےکہ دجلہ و کربلا کے پانیہمارے ایثار کی داستانیںجہان بھرکو سنا رہے تھےکوئی وہ دن تھےشہادتوں کے عظیم درجےہماری سوچوں کی طاقتوں سے عظیم تر تھے
کوئی یہ دن کہخود اپنے گھر میں سوائے قبروں کے ہم نے کچھ بھی نہیں بنایاہماری ذاتیںہمارے فرقےہماری گلیاںہماری سڑکیںعدالتیںاور سکول سارےہمارے منبر امام باڑ ےہمارے ہی خون سے تر بتر ہیں چہار جانب سے تک رہی ہیں ہمیں وہ آنکھیںجو اپنے چہروں سے گر گئی ہیںوہ مردہ آنکھیںہمارے پل پل پہ نوحہ خواں ہیں

اور اب یہ ہم کہخدائے قہر و جبار بن کےخود اپنی نسلیں مٹا رہے ہیںکوئی بھی مذہبکوئی بھی قانوںکوئی بھی دھرتیکوئی بھی رشتہہمارے شر سے بچا نہیں ہےکہاں کی دوزخ کہاں کی جنتکہاں قیامتکہاں خدا ہے
ہم اپنے اپنے سوالنامے لیے کھڑے ہیںثمینہ تبسم

Thursday, 26 June 2014

آج کی بات !!!

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم یہ سمجھ سکیں کہ اس وقت ہمیں ایک اسلامی مُلک بننے سے زیادہ ایک انسان دوست مُلک بننے پہ توجہ دینی چاہئے تاکہ ہماری بُنیادیں مظبُوط ہوسکیں

Wednesday, 25 June 2014

کشمکش !!!

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی بات پہ اچانک ہی تھم سی جاتی ہے زندگی اپنی ذہن سے دل تلک گھڑی بھر میں خوف، شک اور نفرتوں سے بھری امربیلیں سی پُھوٹ پڑتی ہیں اور ہم اپنی ذات میں گُم سُم خُود سے کیا کیا سوال کرتے ہیں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کس لئیے اسقدر اُلجھتے ہیں کس لیئے بھاگتے ہیں تھکتے ہیں سیدھے سادے سے اپنے جیون کو اک جہنُم بنا کے رکھتے ہیں اپنے اندر سجا کے رکھا ہے قتل و غارت گری کا اک مندر خُود ہی بھگوان بن کے بیٹھے ہیں اور خُود کو بلی چڑھاتے ہیں کیوں ہے مُشکل یہ مان لینا کہ باقی ساری ضرورتوں کی طرح مل کے رہنا بھی اک ضرورت ہے مل کے رہنے کا ذکر آتے ہی تنگ ذہنوں کی سیاہ سوچوں پہ اقلییت سُولی چڑھنے لگتی ہے فرقے بازی کےخُونی شعلوں سے میرے مظلُوم لوگ مرتے ہیں زندگی پھر سے تھم سی جاتی ہے اور ہم اپنی ذات میں گُم سُم خُود سے کیا کیا سوال کرتے ہیں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے ثمینہ تبسم

Samina Tabassum's TV Play "Matta-e-Gharoor" Part 4

Samina Tabassum's TV Play "Matta-e-Gharoor" Part 3

Samina Tabassum's TV Play "Matta-e-Gharoor" Part 2

Samina Tabassum's TV Play "Matta-e-Gharoor" Part 1

آج کی بات !!!

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم حقُوق اللہ اپنی ذات تک رکھیں اور حقُوقُ العباد پہ توجہ دیں تاکہ مُعاشرے میں پھیلی نفرتوں کی کڑواہٹیں دُور ہو سکیں

Tuesday, 24 June 2014

قضائے عُمر !!!

ابھی کُچھ دیر پہلے جب اذاں کی گُونج میرے کان کے رستے سے میرے دل میں اُتری تھی میں حیراں ہوں کہ سوچا ہی نہیں تھا وقت کتنا تنگ ہے اور سر پہ آ پُہنچی قضائے عُمر کی ساعت میرے صبر و قناعت ڈولتے ہیں میں کائنات کی افضل تریں مخلوق ہو کر بھی نڑی حیراں کھڑی ہوں ایک لامحدود وُسعت میں میرے چاروں ظرف پھیلا نفی اثبات کا گہرا سمندر کسی ان دیکھی دُنیا کی طرف مُجھ کو بُلاتا ہے یہ ماہ و سال پیچھے بھاگتے ہیں ایک بے سجدہ عبادت کے میری تشکیل کی مٹی میری تکمیل کی مٹی سے ملنا چایتی ہے میں حیراں ہوں کہ سوچا ہی نہیں تھا وقت کتنا تنگ ہے کہ سر پہ آ پہنچی قضائے عُمر کی ساعت ثمینہ تبسم

آج کی بات !!!

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم نُمائشی زندگی کی بجائے قناعت پسندی اور سادگی پہ توجہ دیں تاکہ ہمارےمرد غیر ضروری ذہنی دباؤ سے بچ سکیں ۔

FOTH-BOOK REVIEW EVENT - SAMINA TABASSAM

عفاف اظہر ۔۔۔۔ ایک بہادر عورت


اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تُجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری

زندگی میں دو ہی گھڑیاں مُجھ پہ گُزری ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے، اک تیرے جانے کے بعد

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

اس کی آنکھوں کا تصور لے کر
بن پیئے یوں ہی بہکتے رہنا

کس لیئے دیکھتی ہو آیئنہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

عشق، جوانی، حسن، نشہ، ہجرو وصال، نیلی آنکھیں، گلابی ہونٹ، نازُک اُنگلیاں۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین کریں۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کسی ایک کا ذکر بھی میں نہیں کرنے والی کیونکہ ّعفاف اظہر نے اپنی کتاب میں ایسا کُچھ نہیں لکھا۔
ان کی کتاب پڑھنے کے بعدمیں پُورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ آج عفاف سر اُٹھا کے بڑے اعتماد سے یہ دعوی کر سکتی ہیں کہ
اُسی پتھر پہ سر تانے کھڑی ہوں
مُجھے جس کے تلے دابا گیا تھا

***
عفاف کا دل محبت سے لبریز ہے مگر یہ مُحبت مست کر دینے والی نہیں بلکہ ساری مستی اُتار کے آپ کو سچ کی ایک ایسی پتھریلی پگڈنڈی پہ لا کھڑا کرتی ہے کہ آپ پسینہ پونچھتے رہ جاتے ہیں

***
انتظار کی گھڑیاں عفاف پہ بھی کٹھن گُزرتی ہیں مگر یہ محبوُب کے قدموں کی آہٹ نہیں بلکہ اُس نقارے کی مُنتظر ہیں جو انصاف کی اندھی اور بہری دیوی کے مُردہ جسم میں روح پھونک سکے

***
رنگ، خُوش بُوئییں اور مُسکراہٹیں انہیں بھی پسند ہیں مگر اس وقت جب وہ معصوم بچوں اور ماؤں کے چھہروں پہ نظر آتی ہیں اور زندگی زندہ لگتی ہے

***
چوکھٹ سے لگے نسوانی وجود انہیں بھی نظر آتے ہیں مگر اس وقت جب کسی خاندان کے اکلوتے کمانے والے کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دےا جاتا ہے اور گھر کی ماں ، بہنیں، اور بیٹیاں مدد کی آس پہ گھر کی چوکھٹ پہ آنکھیں بن کے بیٹھ جاتی ہیں

***
نازُک اُنگلیوں کا ذکر یہ بھی ضرور کرتی ہیں مگر اُس وقت جب ننھے ننھے ہاتھوں پہ رکھا کشکول ان کی انکھوں کی روشنی بجھا دیتا ہے ہا جب ننھے بچوں کو کارخانوں کی آہنی مشینوں کا ایندھن بنے دیکھتی ہیں

***
جذبوں، اُمنگوں اور خابوں سے بھرپور جواں لوگوں کا ذکر بھی کرتی ہیں ۔۔۔۔ اُسوقت جب ایک جوان حاملہ عورت کو اینٹئں مار مار کے سر _عام قتل کر دیا جاتا ہے کہ اس نے ایک عورت ہوتے ہوئے محبت کی شادی کرنے کی جراءت کی یا اُس وقت جب انسانی خدمت کے جذبے سے بھر پُور ایک جوان ڈاکٹر کو اُس کی فیملی کے سامنے گولیاں مار کے ختم کر دیا جاتا ہے کہ اُس کا تعلق ایک اقلییت سےتھا

***
حاظرین_ محفل ۔۔۔۔۔۔۔جب آپ حرز _ جاں ہویے ان خیالات کو پڑھنے بیٹھیں تو حفاظتی اقدامات ضرور کر لیں ورنہ آپ بھی فریاد کرتے نظر آئیں گے کہ
عجب تو یہ ہے کے کوشش ہمیشہ کرتی ہے
یہ زندگی ہی مُجھے مار ڈالنے کے لیئے

***
اپنے لوگوں اور انسانیت سے مُحبت کا جو احساس عفاف کے دل میں جڑیں پکڑ چُکا ہے وہ نا تو لکھنے والے کو کبھی چین سے بیٹھنے دے گا اور نا ہی پڑھنے والون کو۔۔۔ کئی جگہ غُصے کے مارے آپ کے کانوں سے دُھواں نکلے گا اور کئی جگہ آنکھوں سے آنسو ۔۔۔۔کتاب پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے عفاف کو میٹھے سے مُکمل پرہیز ہے ۔ کڑوی سچایئاں اور تلخ لہجہ کئ بار گلے میں ایسے پھنس جاتا ہی کہ سانس لینا مُشکل ہو جاتا ہے اور میرے جیسے میٹھے کے شوقین بلبلا اُٹھتے ہیں ۔ مانا کہ چینی صحت کے لیئے اچھی نہیں مگر میرے خیال میں سویٹنر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں

***
اگرچہ کتاب میں لکھی گئی کُچھ باتوں سے میں عفاف سے مُتفق نہیں مگر اس کے باوجود میں ان کے حوصلے اور بہادری کو سلام کرتی ہوں ۔ایک عورت اور خاص طور سے ایک پاکیستانی عورت ھونے کے ناطے مُعاشرے کے اُن ناسوروں کے بارے میں کُھل کر لکھنا جن کے بارے میں مرد بھی اپنے نفع نقصان کا اچھی طرح جایزہ لے کر بات کرتے ہیں ۔۔عفاف ہی کا خاصہ ہے

***
مائی ڈئر عفاف ۔۔۔۔۔۔ اپنے تنگ ذہنوں کی بند کھڑکیوں کے پیچھے کھڑے ہمارے لوگ ۔۔۔۔ چاہے مُجھے اور آپ جیسی عورتوں کو بُری عورتیں کہہ کے بُلاتے رہیں ۔۔۔۔۔آیئے ہم یہ وعدہ کریں کہ بے آوازوں کی آواز بن کے ۔۔۔۔۔۔ اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی خاطر۔۔۔۔۔ ہم اپنے مُعاشرے میں ہونے والی بُرائیوں کے خالاف ہم لکیں گے اور ہمیشہ لکھتے رہیں گے کیونکہ میرے خیال میں

دنیا میں کوئی اُس سا مُنافق نہیں قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

ثمینہ تبسم

Monday, 23 June 2014

آج کی بات


کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے مُستقبل کی باگ ڈور مُلاؤں کے ہاتھ میں دینے کی بجائے اساتذہ کے ہاتھوں میں دے دیں تا کہ ہمارے بند ذہنوں کی تنگ کھڑکیاں کھُل سکیں۔

Sunday, 22 June 2014

آج کی بات !!!


کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے بچوں کو خُوبصورت نظر آنے کی بجائے خُوبصُورت انسان بننے کی تربیت دیں تا کہ وہ رزق _ حلال پہ قناعت کر سکیں ۔ 

Saturday, 21 June 2014

مُجھے سنگسار مت کرو بھائی !!!

وہ کہتے ہیں
" تُمہیں کیا تکلیف ہے ۔۔۔۔۔ تُم اپنے کام سے کام رکھو "
یہ میرا کام ہے میرے بھائی۔
جب کسی معصوم بچی سے زیادتی کی جاتی ہے۔۔۔
 جب کسی عورت کو سر _ عام اینٹیں مار مار کے ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔۔۔
 جب عورتوں کے کپڑے سڑکوں پہ پھاڑے جاتے ہیں اور اُن کے مُردہ جسموں کی بے حُرمتی کی جاتی ہے ۔۔۔ 
تو میں تُمہاری طرح کان مُنہ لپیٹ کے ، 
یہ سوچ کر وہاں سے نہیں نکل جاتی کہ ابھی میرے گھر میں میرے کپڑے دھونے، 
کھانا پکانے، بستر سجانے اور بچے پیدا کرنے والی موجُود ہے۔۔۔۔
 مُجھے کیا ??
لیکن میں وہاں موجُود ہوتی ہوں ۔۔۔
 اُن کو کفنانے، اُن پہ ماتم کرنے اور اُن سے معافی مانگنے کے لیئے کہ میں اُنھیں بچانے کے لیئے کُچھ نہیں کر سکی
مُجھےجاں سے مارنے یا سنگسار کرنے کی دھمکیاں دینے والو ۔۔۔۔
 یہ یاد رکھو کہ میں کوئی ایک نہیں ہوں ۔۔۔۔
 میں تو ہر جگہ ہوں ۔۔۔
 ہر گھر میں ہر دل میں ہوں ۔۔۔۔
وہ دُور قُراقرم کی پہاڑیوں پہ ۔۔۔۔ 
خُشبودار درختوں سے ڈھکے ۔۔۔۔
 ایک چھوٹے سے کچے مکان میں ۔۔۔۔۔
 اپنی لکڑی گی گُڑیا کو سُوکھے پتے پہ لکھی کہانی سُناتے ہوئے ۔۔۔۔
 کہ آج میری اُستانی جی نے مُجھے شاباش دی کہ میں نے اپنا سبق اچھی طرح سے یاد کیا تھا
وہ ۔۔۔۔ وہاں ۔۔۔۔ تھر کے بھُوکے پیاسے صحرا میں ۔۔۔ اپنے آس پاس جاں بلب لوگوں کو بہلا رہی ہوں کہ بہت جلد پڑھ لکھ کے میں اپنے پیروں پہ کھڑی ہو جاؤں گی تو سب سے پہلے تُم لوگوں کے لئے روٹی خریدوں گی
اُدھر دیکھو ۔۔۔۔ بلوچستان کے ایک دُور دراز گاؤں میں ۔۔۔۔ بنا بجلی اور پانی کے ایک غریب سا گھر ۔۔۔۔۔ میں اپنے بابا سے فریاد کر رہی ہوں کہ مُجھے چند رُوپوں کی خاطر مت بیچو ۔۔۔۔ میں کوئی بکری نہیں ہوں ۔۔۔۔مُجھے کُچھ بڑا ہونے دو ۔۔۔ سکول جانے دو ۔۔۔۔ پھر دیکھنا میں کتنی انمول ہو جاؤں گی۔
وہاں اُس طرف ۔۔۔۔ تنگ ذہنوں کی بند کھڑکیوں سے جھانکتی ۔۔۔۔۔۔ اُونچے شملے والے ۔۔۔۔۔اس قبائلی علاقے میں .... اپنے قبیلے کے سردار کے گھر سر جُھکائےبیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کہ صرف روٹی، کپڑے کے لیئے تو اللہ جی نے مُجھے اس دُنیا میں نہیں بھیجا تھا ۔۔۔۔۔۔ مُجھ سے میری روٹی لے لو۔۔۔۔۔ مُجھے ایک کتاب دے دو۔۔۔۔۔۔ تا کہ میں سر اُٹھا کے جی سکوں
اور یہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔ میں یہاں بھی ہوں ۔۔۔۔۔ پنجاب کی اس بہت بڑی اور خُوبصورت حویلی میں ۔۔۔۔ لوگ میری قسمت پہ رشک کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور میں سوچتی ہوں کہ اگر پڑھی لکھی ہوتی تو ایک بُوڑھے آدمی کی چوتھی بیوی ہونے کی بجائے ایک اُستانی ہوتی ۔۔۔۔ پھر میں خُود پہ فخر کرتی ۔
اور میں سندھ کے اس گھر میں بھی موجُود ہوں ۔۔۔۔۔ اپنی دو پھُپھیوں کی طرح ۔۔۔۔ میری شادی بھی قرآن پاک سے کر دی گئی ہے ۔۔۔۔۔ خُوبصورت قیمتی کپڑوں اور زیوروں میں زندہ دفن ۔۔۔۔۔ اکثر سوچتی ہوں کیا میرے بھایئوں نے کبھی قُرآن کھول کر پڑھا بھی یے ?
میں تو ہر جگہ مو جُود ہوں ۔۔۔۔ اپنے خالق کی قُوت _ تخلیق کا مظہر ۔۔۔۔۔ تُمہاری آیئندہ نسلوں کی ضامن ۔۔۔۔۔ تُمہاری ماں، بہن اور بیٹی۔ میں تو ہر ایک میں نظر آتی ہوں
آخر کتنی ثمیناؤں کو مارو گے ??
اُس دن سے ڈرو جب پتھر ختم ہو جایئں گے اور تُم قوم - لُوط کی طرح عذاب _ الہی کا شکار ہو کر عبرت کا نمُونہ بن جاؤ گے ۔
تو میرے پیارے بھائیو !
مُجھے ڈرانے دھمکانے کی بجائے اُس خاموش طُوفان سے بچنے کی تدبیر کرو جو دبے قدموں تُمھارے گھروں کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ عزت اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو نہیں بُھوک، غُربت اور جہالت کو سنگسار کرکے بچائی جا سکتی ہے۔

آج کی بات !!!

کیا ہی اچھا ہو اگر آپ نوکری کرنے والی عورتوں کو " بُری عورتیں " سمجھنا چھوڑ دیں اور اُنہیں عزت دیں ۔ اس سے آپ کی ذہنی اور مُلک کی مُعاشی حالت پہ اچھا اثر پڑے گا ۔

Friday, 20 June 2014

گُناہ !!!


نہ اپنی کہنا
نہ میری سُننا
خاموش رہنا
جہان بھر کی کتابیں پڑھنا
ہُنر میں اپنے کمال کرنا
لباس اعلی‘
سنگھار عُمدہ
زمانے بھر کو غُلام کرنا
مگر کبھی جب بدن پہ خاہش کی ننھی کلیوں میں پُھول آئیں
کبھی نگاہوں کی برف پگھلے
کبھی جو راتوں کے پچھلے پہروں میں نیند ٹُوٹے
تو کُچھ نہ کہنا
یہ یاد رکھنا
گُناہ کا فتوی‘ لگے گا تم پہ
یہ شجر _ ممنُوع پہ اُگنے والا ثمر تُمہیں بھیک میں ملے گا
خموش رہنا
خموش رہنا
خموش رہنا
ثمینہ تبسم

آج کی بات !!!


کیا ہی اچھا ہو اگر ماہ _ رامضان میں ہم چینی، چاول، نمک،گھی اور مُنافقت سے مُکمل پرہیز کریں تاکہ جسم کے ساتھ ساتھ رُوح بھی ہلکا پُھلکا محسوس کرے !!!

Thursday, 19 June 2014

اندیشہء افعی !!!

میں عورت ہوں
میں ڈرتی ہوں
مرے رستے میں کتنے خُوشنُما رنگوں کے سانپوں کا بسیرا ہے
ہوس کے ناگ
اپنی ذات کے پتھر کے نیچے کُنڈلی مارے
کہیں پہ بے حسی کی اوٹ میں بیٹھے
کہیں پہ برگُزیدہ سانپ زہر _ پارسائی سے بھرے
کسی لمس _ جُنوں انگیز کی چاہت میں ڈُوبے اُونگتے ہیں
میں حیراں ہوں کہ ان میں اس طرح کے اژدھے بھی ہیں
جو اپنی عُمر کی ڈھلوان سے نیچے لُڑھک کر
موت کے پاتال میں گرنے ہی والے ھیں
ہوس کے ناگ مُجھ کو دیکھ کر پُھنکارتے ہیں
پھر اس دام _ ہوس کو خُوبصورت لفظ دیتے ہیں
اور ان لفظوں کے جادُو کو وہ مُجھ پہ پُھونک دیتے ہیں
میں دل ہی دل میں پھر رد _ بلا کا اسم دھراتی
تمنا کی گُزرگاہوں سے بچ کے چلتی ریتی ہوں
کسی ناگُفتہ خاہش کی پٹاری میں پڑے پھنیئر
مُجھے تکتے ہیں جب بھی ٹکٹکی باندھے
تو اب میں ان کی پلکوں سے تہی آنکھوں میں اک عیار خاہش دیکھ لیتی ہوں
کہ اب میں ان کی بےتابی کے پیچ و خم سمجھتی ہوں
میں سُن سکتی ہوں ہر آہٹ کو
ان کی سر سراہٹ کو
مُجھے ان کا کوئی ہمزاد پہلے ڈس چُکا ہے
بس چُکا ہے زہر جسکا میری نس نس میں
کبھی مُجھ کو نواح - جسم میں پھیلی خضر آثار تنہائی ستائے
ہا کبھی جادُو بھرے الفاظ پہ مُجھ کو
مُحبت کا گُماں سا ہو
تو میں ان زرد ہاتھوں
اور اپنے نیلگُوں ہونٹوں کو پھر سے دیکھ لیتی ہوں
میں عورت ہوں
میں ڈرتی ہوں
ثمینہ تبسم

آج کی بات !!!



کیا ہی اچھا ہو اگر جنسی تعلیم بھی نصاب میں شامل کر دی جائے تاکہ ہمارے بچے پوشیدہ جنسی امراض سے محفُوظ رہ سکیں !!!

Wednesday, 18 June 2014

رُتبہ !!!


اُسے کم زور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
اُسے تقدیر کی گردش نے جب گردش میں ڈالا ہے
ہر اک مُشکل کو سر کر کے
خُود اپنےپاؤں پہ چل کے
ہر اک طُوفاں سے نکلی ہے
وہ غم کے ساحلوں سے سییپیاں چُنتی ہے خُوشیوں کی
وہ دُکھ کے بادلوں میں سائباں بن کے اُبھرتی ہے
اُسے کمزور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
دکھاؤ مت اُسے تُم خواب جنت کی بہاروں کے
ڈراؤ مت اُسے تُم ذکر کر کر کے جہنُم کا
اُسے خُود خالق ـ تقدیر نے تخلیق کے فن سے نوازہ ہے
وہ دامن میں لیئے پھرتی ہے اس دُنیا قسمت کو
وہ اپنے نرم آنچل میں پناہ دیتی ہے نسلوں کو
اُسے کمزور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں کہ جب رسمُوں رواجوں کے
بھییانک ناگ اُس کو خُوں رُلاتے تھے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں کہ جب کردار پہ تہمت لگا کے
تُم اُسے اُس کی نگاہوں سے گراتے تھے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں کہ سمجھوتے کی چادر میں لپیٹی کاٹھ کی پُتلی سمجھ کے
تُم اُسے اپنے اشاروں پہ نچاتے تھے
یہ گُزرے کل کی باتیں ہیں
وہ اپنے عزم و ہمت سے
اب اپنی راہ میں حاہل انا کے بُت گرا دے گی
وہ بے نام و نشاں رستوں کو سنگ ـ میل کردے گی
اُسے کمزور مت سمجھو
وہ بیچاری نہیں ہے
ثمینہ تبسم

آج کی بات !!!

کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اپنی بیوی کو روٹی کپڑےاور زیور دے کر چُپ کرانے کی بجائے اُسے نوکری کرنے کی اجازت دے دیں۔ اس طرح آپ کے کان، دل اور دماغ ہلکے اور جیب بھاری ریے گی

Tuesday, 17 June 2014

نئ کل !!!

بہت دن ہو گئے تُم نے
نئ کل پہ نہیں لکھا
تو اب لکھو
اور اس سے پیشتر کہ ان لکھے لفظوں کی دلدل میں
تُمہاری سوچ دھنس جائے
خُدارا کُچھ نیا لکھو
وہ ہنستے اور گاتے لفظ
جو مل کر خُوشی تخلیق کرتے ہیں
کسی معصُوم سے بچے کی آنکھوں میں شرارت سے چمکتے لفظ تُم لکھو
خُدارا زندگی دو
وقت کے اندھے کُوئیں میں کھو گئے اُن سبز لفظوں کو
جو اس کائی زدہ دُنیا میں اُمیدیں کھلاتے تھے
جو خُوشبو تھے
بہاریں تھے
جو نغمے تھے
فسانے تھے
وہ سارے لفظ جن کو سوچ کے خالق نے یہ دُنیا بنائی تھی
وہ سارے لفظ جی اُٹھنے کی خاہش میں
تُمہیں حسرت سے تکتے ہیں
خُدارا اُن کو جیون دو
نئی کل پہ نیا لکھو
میں لکھوں گی
میرے عرفان
ساری بات لکھوں گی
وہ سارے لفظ چاہت کے
شرارت کے
خُوشی کے
پیار کے
معصُومیت کے لفظ لکھوں گی
ذرا کُچھ دن ٹھہر جاؤ
کتاب ـ زندگی کے جو صفحے میں پڑھ رہی ہوں
وہاں جو لفظ ہیں
کڑوے کسیلے ہیں
وہاں پہ بھُوک ہے
جبر ـ مُسلسل ہے
غُلامی ہے
جہالت ہے
تشدُد ہے
وہ سارے لفظ جو ہونٹوں سے پیلی زرد نفرت بن کے بہتے ہیں
میں اُن خُود غرض لوگوں کے جہاں میں جی رہی ہوں جو
فقط اپنے لیئے جیتے ہیں
اپنا پیٹ بھرتے ہیں
مُجھے نظریں اُٹھانے, سوچنے, کُچھ بولنے کا حق نہیں ہے
جہاں اشراف کا اک بُت بنا کر وقت کی دہلیز پہ گاڑا گیا ہے
جہاں ہر سوچ پہ مذہب نے جالے تان رکھے ہیں
وہاں جو لفظ لکھے ہیں
وہ تنگ ذہنوں کی چھوٹی سوچ پہ ماتم کناں ہیں
گھڑی بھر کو ٹھر جاؤ
کہ نیلے آسماں کی الوہی وُسعت میں کوئی معجزاتی گیت گایا جا رہا ہے
میری تاریک سوچوں کی بہت سُنسان پگڈنڈیوں پہ اب جُگنُو جمکتے ہیں
میرے بچے جہالت کے جہنُم سے نکل آنے ہی والے ہیں
میرے لوگوں نے اب طوق ـ غُلامی توڑ ڈالا ہے
میری آنکھیں حسیں قوس و قزح کے سات رنگوں سے ذرا مانُوس ہو جایئں
تو لکھوں گی
نئی کل پہ بھی لکھوں گی
ثمینہ تبسُم

آج کی بات !!!



کیا ہی اچھا ہو اگر ہم سے صرف بستر سجانے کی بجائے مُلک سجانے کا کام بھی لیا جائے !!!

Monday, 16 June 2014

14 جُون 1:35 AM



وہ جو بات پُوری نہ ہو سکی
وہ جو نظم آدھی ہی رہ گئ
وہ جو دل رُکا تو رُکا رہا
وہ جو میرے اشک نہ بہہ سکے
وہ جو تیرے لہجے کا عُذر تھا
وہ بٹن کبھی نہ جو کُھل سکے
وہ جو رات تُم پہ اُدھار تھی
وہ تمام تُجھ پہ نثار ہیں
کبھی وقت ہو
میرے سوہنیا
میرےجوگیا
میرے رانجھنا
تو پلٹ کے آنا یہ دیکھنے
میری زندگی کی کتاب کا
وہ صفحہ ہمیشہ کُھلا رہا
ثمینہ تبسم

Sunday, 15 June 2014

ابا جی !!!


بڑا ہی تلملاتی تھی
بہت ہی بُڑبڑاتی تھی
کسی چُھٹی سے پہلی شام
مغرب پڑھ کے گھر آتے تو کہتے تھے
" او کڑئیے کل ذرا میرے پلنگ دی نوار تؤ کے کے فیئر بُنڑ دیئیں "
( کل میرے پلنگ کی نوار دھو کے پھر سے پلنگ بُن دینا )
میں اپنا سر پکڑ کے بیٹھ جاتی تھی
میرے ابا جی کھانا کھا کے
خود تو شام کی تازہ ہوا میں سیر کرنے کو نکل جاتے
میری لمبی دہاڑی کا تبھی آغاز ہو جاتا
میں صُوفی سوپ کی دو تین ٹکیاں کاٹ کے رکھتی
کہ تڑکے جب پلنگ کو کھول کے
اس کی نواریں دھوؤں تو پھر دیر نہ ہو
شام تک اس کے سکھانے اور پھر اُس کے بنانے میں
رنگیلے بھاری پایئوں سے سجے اس بیڈ کی اپنی اک کہانی تھی
ہرے اور سُرخ اور کالے پرندے، پُھول اور پتیاں سجے
پایئوں کے سر اور پاؤں کی جانب
کسی گہری سیاہ لکڑی کے پیچیدہ ڈیزائن کے تکونے چوکھٹوں میں
بڑے بھاری سے پیتل کے کئی گھنٹی نُما گھنگرو لٹکتے تھے
سرہانے کی طرف اک آئینہ
جو اب نجانے کتنی صدیاں سہہ کےاندھا ہو گیا تھا
کسی خاموش افسانے کا اک کردار لگتا تھا
فجر پڑھ کے وہ گھر آتے
ضیائے حرم کا کوئی رسالہ لے کے
آنگن میں پڑی آرام کُرسی
استراحت کا شرف پا کر
ذرا کُچھ چوں چراں کرتی
مگر خاموش ہو جاتی
اور اُس کے بعد امی جی مُجھے آواز دیتیں
"ثمینہ ۔۔ اُٹھ بھی جاؤ۔۔۔۔ پانی بند ہونے سے پہلے کام کرنا ھے "
ثمینہ میں کہاں ہمت تھی یہ نعرہ لگانے کی کہ
" امی آج چُھٹی ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو بس صُبح کے چھ بجے ہیں ماں "
مگر یہ بے دلی کُچھ اولیں گھڑیوں کا حصہ تھی
پھر اس کے بعد
میں ساری نواریں کھول کے
اُن کو اُبلتے پانیئؤں میں ڈال کے دھوتی
دیواروں پہ پھیلاتی
سُوکھنے کی مُنتظر رہتی
پلنگ کی ہلتی چُولوں میں مشینی تیل بھرتی
اور اس کے ایک اک حصے کو گیلے نرم کپڑے سے
بڑی چاہت سے چمکاتی
وہ پیتل کے کئی گھنٹی نُما گُھنگھرو
کسی دُھوپوں میں پھرتے سانولے چہرے کی طرح سے چمک جاتے
پتہ نئیں کیوں
بڑا اچھا لگا کرتا تھا
جب میں چوکڑی مارے
زمیں پہ بیٹھ کے اُن گُھنگھرؤں سے بات کرتی تھی
تو اس سارے عمل کے درمیاں
ابا جی کُرسی پہ بڑے آرام سے جُھولے لیا کرتے
کبھی آواز دیتے
" کُڑیئے پاڑیں لے کے آ " یا " دُدھ پتی بنا کے دے "
( پانی لا کر دو ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ دُودھ پتی بنا کے لاؤ )
" ابھی آتی ہوں ابُو جی "
میں پہلے بھاگ کے
اپنا دوپٹہ لےکہ سر کو اورسینے کو بہت اچھی طرح ڈھکتی
پھر اپنے ہاتھ دھو کر
سر جُھکا کے اُن کی خدمت میں کھڑی ہوتی
کسی بھی اک ذرا سی بات پہ جھڑکی یا کوئی ڈانٹ سُنتی
کبھی کہتے
" اے پاڑیں بوت ٹھنڈا اے " یا " ٹھنڈا کیوں نیئں اے "
( پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ تھنڈا نہیں ہے )
یا پھر کہتے
" تُوں بُڈی او گیئ ایں پر اجے وی چاء نئیں آوندی بناڑیں "
( تُم بُڈھی ہو گئی ہو مگر ابھی تک چائے بنانی نہیں آئی )
اگر وہ کُچھ نہیں کہتے
تو ابا جی نیئں لگتے تھے
نواریں سُوکھتیں
گولے بناتی
میں اور امی مل کے اُس شاہی پلنگ کو پھر سے بُنتے
عصر پڑھ کے وہ گھر آتے
اور اپنے اُونچے پائیوں سے سجے بستر پہ ہوں تشریف رکھتے
جسطرح فوجی ہمارے مُلک کی گدی پہ اپنا حق سمجھتے ہیں
میرے ابا جی فوجی تھے
بڑے ہی سخت بندے تھے
مگر پھر بھی میں اُن سے پیار کرتی تھی
مگر اے کاش کہہ دیتی
کبھی تو اُن سے کہہ دیتی
ثمینہ تبسم

Saturday, 14 June 2014

مُعمہ !!!


اک جذبہء ممنُوعہ
جو ہماری وجہء بقا ہے
وہی میری وجہء تذلیل یے
جب میں نے بلوغت کی تکلیف سہی
مُجھے بتایا گیا
جوانی اک سانپ ہے
اس کے ڈنک سے بچنا
میں نے ڈر کی چادر اُوڑھ لی
میں بیاہ دی گئی
اور اس سانپ نے مُجھے لمحہ لمحہ ڈسا
میں زہر کی نکولی بن گئی
مُجھے بتایا گیا
خاہش نہ کرو
تُمہارے لئے یہ گُناہ ہے
اس اگ کو اپنے اندر اُتار لو
میں پارس بن گئی
مُجھے چُھونے والا معتبر ہوا
اور میں
اپنے جذبوں کے ہاتھوں
سنگسار ہوئی
ثمینہ تبسم

Thursday, 12 June 2014

چاند چہرہ !!!

رات
میں تھی
وہ چاند چہرہ تھا

ایسا چہرہ کہ دیکھ کر جس کو
پلکیں اپنی جھپک نہ پایا دل

ایسا چہرہ کہ جس کی آنکھوں میں
چاند اُترا ہوا سا لگتا تھا

اُس کا لہجہ
شراب لہجہ تھا
باتیں ایسی کہ اُس کے ہونٹوں سے
لفظ مدہوش ہو کے گرتے تھے

اُس کے رنگ جیسا کوئی رنگ نہیں
ایسا روشن کہ چاندنی گُم تھی

اور اُس لمس کا نشہ کہ بس
اپنے اندر میں رقص کرتی تھی

رات کیا رات تھی
وہ جیون تھا
میں تھی
اور ایک چاند چہرہ تھا

ثمینہ تبسم

Wednesday, 11 June 2014

میرے چندا !!!


کس قدر نُمایاں ہو
کس قدر مُکمل ہو
کتنے خُوبصورت ہو
گرمیوں کی راتوں میں
گھاس کے سمندر میں
میں ہوں اور بس تُم ہو
زندگی مُجسم ہو
موتیئے کی خُوشبُو جب
سانس مہکائے میرے
اپنے گھر کے آنگن میں
بیٹھ کے تُمہیں دیکھوں
دیکھ کے تُمہیں سوچوں
مُجھ کو سامنے پاکر
کس طرح چمکتے ہو
زندگی بدلتی ہے
تُم نہیں بدلتے پر
دُور مجھ سے رہ کر بھی
صرف میرے اپنے ہو
پاس میرے مت آنا
مُجھ کو چُھو کے ورنہ تُم
خُود کو بُھول گے
میں بھی ٹُوٹ جاؤں گی
تُم بھی ٹُوٹ جاؤ گے
دُور ہی رہو مجھ سے
پیار بھی کرو مُجھ سے
کل بھی میری راتوں میں
ایک تُم تھے اک میں تھی
آج بھی میرے چندا
جسم و جاں میں بستے ہو
کس قدر نُمایاں ہو
کس قدر مُکمل ہو
کتنے خُوبصورت ہو
ثمینہ تبسم

Tuesday, 10 June 2014

میں تُمہارے ساتھ ہوں !!!


چاہے کوئی کُچھ بھی کہے
نفرت کرے
الزام دے
ظالم کہے
دُھتکار دے

تُم حوصلہ نہ ہارنا
کہ میں تُمہارے ساتھ ہوں

میرے بہادر فوجیوں
سر کو اُ ٹھا کے تُم جیئو
ہم سب کی جو پہچان ہے
وہ پیارا پاکستان ہے

ہم کل بھی تھے
ہم آج ہیں
اور کل بھی ہوں گے شان سے

میرے وطن کی سرحدیں
کس میں ہے دم جو سر کرے
مکار دُشمن کے لیئے
تُم آہنی دیوار ہو

چاہے کوئی کُچھ بھی کہے
تُم حوصلہ نہ ہارنا
کہ میں تُمہارے ساتھ ہوں

ثمینہ تبسم

Boko Haram !!!

I cannot celebrate
A Mother’s day today
I cannot be a proud mother
When
Hundreds of my daughters are being kidnaped
They are crying
They are hungry
They are going to be sold as meat
In the name of religion
they have been punished
For having a dream
They wanted to be role models for their daughters
They wanted to live as human beings
Now
Sitting in my living room
I can hear
They are cursing
Me and you
As we are responsible for bringing them in this cruel world
How can we celebrate today?

Samina Tabassum

Monday, 9 June 2014

سانحہء کراچی !!!

وہی
ویسا ہی
جیسا تھا
سبھی کُچھ ہے
وہی بچوں کا رونا چیخنا، ماؤں کا چلانا
وہی بے حد بُری آواز میں خُوشخبریاں دیتے ہوئے اعلاں
جہازوں کے اُترنے اور اُڑنے پہ وہی پُرشور بےچینی
وہی لوگوں کا بھاگم بھاگ اپنے سُوٹ کیسوں کو
کسی مال - غنیمت کی طرح گن گن کے رکھنا اور پھر گننا
وہی اپنی دہاڑی میں مگن
مُٹھیوں میں ڈالر، پونڈ بھینچے پورٹر اور اُن کے نخرے
ابھی کُچھ دیر پہلے تک
یہاں پہ زندگی زندہ سی لگتی تھی
ابھی کُچھ دیر پہلے
وردیاں پہنے ہُوئے باپوں نے بیٹوں نے
یہ منظر اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا تھا
وہی
ویسا ہی
جیسا تھا
سھی کُچھ ہے
مگر اب وردیاں تابُوت پہ تہہ کر کے رکھی ہیں
اور آنکھیں امر ہو کے
دیس کے پرچم پہ
چم چم چم چمکتی ہیں
ثمینہ تبسم

پرائیڈ ۔۔۔۔۔ ُعرفی کے لیئے !!!


سُنا ہے
تُم میرے جیسے ہو
بُلکل میرے جیسے ہو

تُمہیں بھی اپنے بالوں میں
سجے بیلے کے گجروں کی مہک
مدہوش رکھتی ہے

تُمہارے کان بھی
چاندی کے جُھمکوں سے
سُریلے لمس میں ڈُوبی ہوئی سرگوشیاں
سُن سُن کے ہستے ہیں

سمندر کی طرح
بےچین سی آنکھیں
مُحبت کی سُبک آہٹ پہ فورا” جاگ جاتی ہیں

تُمہارے ہاتھ بھی
مہندی کی خُوشبو
اور کنگن کی کھنک سے پیار کرتے ہیں

کسی کے نام کی پائل پہن کر
تُمہارے پاؤں
چھم چھم ناچنے کےخواب تکتے ہیں

تُم اپنے دل کی گلیئوں میں
چمکتا سُرخ آنچل اورڑھ کے پھرتی
وہ بیکل ہیر ہو
جو اپنے رانجھے کے لیئے
دُنیا کے سب کھیڑوں سے لڑتی ہے

یہ سب تو ٹھیک ہیے پر تُم
نہ جانے کب سے اپنے جسم کے اندر نہیں ہو
تُمہاری روح کا پنجرہ نہ جانے کس نے چوری کر لیا ہے

کہ اب تُم آئینہ کے سامنے
گالوں پہ ریزر پھیرتے
اک اجنبی چہرے پہ
آنکھیں بن کے کہتی ہو

میں جو کُچھ ہوں
وہ دکھتی کیوں نہیں ہوں
میں جو دکھتا ہوں
ویسا کیوں نہیں ہوں

یہ وہ مُعمہ ہے
جسکی ایک حتمی ہاں یا ناں
مذہب، سیاست اور سسٹم کے گلے میں پھانس بن کے چُب رہی ہے

سُنا ہے
تُم میرے جیسے ہو
بلکل مئرے جیسے ہو

ثمینہ تبسم

میری نظمیں !!!

کوئی ہنستی
کوئی روتی
کوئی اُلٹی
کوئی سیدھی
کوئی غُصے سے مُجھ کو گُھور کے تکتی
کوئی باہیں گلے میں ڈالتی اور لاڈیاں کرتی
یہ جو بھی ہیں
یہ جیسی ہیں
مُجھے سب سے محبت ہے
یہ سب نظمیں نہیں ہیں
بیٹیاں ہیں
یہ ساری میں نے جنمیں ہیں
ثمینہ تبسم

Saturday, 7 June 2014

چھوڑیئےموڈ مت خراب کریں !!!


چھوڑیئے
اور کوئی بات کریں
بات موسم کی
یا الیکشن کی
ٹیکس میں چُھوٹ کی
یا فیشن کی
وقت_ حاظر کی کوئی بات کریں
چھوڑیئے 
اور کوئی بات کریں

آپ سے مل کے ہم نے جانا ہے
جسطرح آسمان اور زمین
جیسے سکے کے مُختلف رُخ ہیں
جیسے مشرق ہے اور مغرب یے
اس طرح مُختلف ہیں آپ سے ہم

ہم نے چاہا تھا ہم محبت میں
ایسے مہکیں کہ جیسے ہاتھوں پہ
تازہ گُوندھی حنا مہکتی ہے

ہم نےچاہا تھا وار دیں ہم بھی
اپنی ساری محبتں ایسے
جسطرح چاندنی محبت سے
چاند کی ایک مُسکراہٹ پہ
لاکھوں تارے نثار کرتی ہے

یہ بھی سوچا تھا ہم نے جان_من
آپ کو یُوں بسا لیں ہم خُود میں
جیسے پیاسی زمین بارش کو
اپنے سینے میں جذب کرتی ہے

پر یہ جا نا کہ وصل کے طالب
اپنی تسکین_ و جسم کے بعد
بُھول جاتے ہیں اپنی اُلفت کو
جیسے باسی گُلاب گجرے کے
کوئی کُوڑے میں پھینک دیتا ہے

آگہی کے عذاب نے ہم کو
ذات کی آگ میں جلایا ہے
خود کو کُندن بنا کے سمجھا یے
سارے رشتے ضرورتوں سے جُڑے
اپنا اپنا خراج لیتے ہیں

آپ کی بے ثمر رفاقت میں
اپنی مٹی کو بار ہا ہم نے
صبر کے پانئوں میں گوندھا ہے
ہم نے خُود کو بلی چڑھایا ہے

اس لیئے کہہ رہے ہیں آپ سے ہم
چھوڑیئے
مُوڈ مت خراب کریں
آیئے
اور کوئی بات کریں

ثمینہ تبسم

خامخواہ !!!


بے وقُوف دُنیا کی
بے تُکی سی باتوں پہ
بے وجہ اُلجھتے ہو
بے سبب کہی باتیں
بے مزہ سا کر دیں تو
بے بسی سے اکثر تم
بے حساب کُڑھتے ہو

کیا تمہیں نہیں معلوم
اس عجیب دُنیا میں
دو طرح کا سب کُچھ ہے
دو طرح کی راتیں ہیں
دو طرح کے دن بھی ہیں
دو طرح کی خُوشیاں ہیں
دو طرح کے غم بھی ہیں
دو طرح کی نیکی ہے
دو طرح کے بد بھی ہیں
ایک میں ہوں
ایک تُم ہو
ہم بھی دو طرح کے ہیں

دو طرح کی باتوں پہ
دو طرح کا من لے کر
خامخواہ نہ اُلجُھو تم
بات کُچھ نہیں لیکن
بے وجہ ہی اُلجھو گے
بک بکی سی دنیا ہے
بے تکی سی باتیں ہیں
بےوقوف دنیا کی
بےتُکی سی باتوں پہ
بے وجہ نہ اُلجھو تم

ثمینہ تبسم

کارو کاری !!!


آہ فرزانہ اقبال !!!

ایک حاملہ کو یوں
پتھروں کی بارش سے
مار ڈالنے والے
وحشیؤ۔۔۔۔۔۔
گنہگارو۔۔۔۔۔۔
تُم سے پُوچھتی ہوں میں

ظالمو بتاؤ تو
کس طرح ہنسو گے تُم
زندگی کی خوشیؤں پہ
کیسے سو سکو گے اب
بین کرتی راتوں میں
کس طرح کرو گے اب
پیار اپنے بیٹوں سے
کس طرح چلو گے تُم
اس زمین پہ جس کو
تُم نے ایک بیٹی کے
خون سے جلا ڈالا

نفرتوں کی تصویرو
اس جہاں کی سب مائیں
بہنیں بیٹییاں تم کو
بد دُعائیں دیتی ہیں
لعنتی سمجھتی ہیں

ثمینہ تبسم

میرا پیارا خُدا !!!


بھاگتے بھاگتے زندگی تھک گئی
جاگتے جاگتے خواب بنجر ہوئے
پھر بھی چہروں پہ جلتے دیئوں میں چُھپی 
آس کی روشنی ختم ہوتی نہیں

فون کی گھنٹیاں
بے پتہ 
بے ٹکٹ
بے لکھی چٹھیاں
دھڑ دھڑا دھڑ دھڑکتی ہوئی کھڑکیاں
اور کہیں چُپ کے بے انت شورو شرابے میں ساکت کھڑے
آہٹوں دستکوں کو ترستے ہوئے
اپنی بُنیاد سے ڈر کے چمٹے ہوئے
گھر کے دیوار و در

کُچھ سوالوں جوابوں کے تیروں سے ڈر ڈر کے چلتی ہوئی
زندگی کی گھڑی
چُپ کے دونوں کناروں کو اوڑھے ہوئے
روز و شب
ماہ و سال
اور صدیوں کے پھیروں میں جلتے
جُھلستے ہوئے
چاند تارے
یہ سُورج
یہ سب کائنات

اپنی مٹی میں گُوندھے ہوئے
باغیانہ سوالوں کے مندر میں
سج بن کے بیٹھا ہوا
ابن _ آدم کا جنت بدر قافلہ

اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں
نسل _ آدم کے طُرے بچاتی ہوئی
اماں حوا کی چیونٹی نسل بیٹیاں

آسماں سے پرے
اپنے ہونے نہ ہونے کے سارے مقالوں کو سُن سُن کے ہنستا ہوا
میرا پیارا خُدا


بھاگتے بھاگتے زندگی تھک گئی
جاگتے جاگتے خواب بنجر ہوئے
پھر بھی چہروں پہ جلتے دیئوں میں چُھپی
آس کی روشنی ختم ہوتی نہیں

ثمینہ تبسم

ہوم لیس !!!


نہ جانے کونسے احساس کا مارا ہوا ہے
نہ جانے نفرتوں کی کونسی منزل کا راہی ہے
نہ جانے کونسے آسیب تھے وہ
جن سے ڈر کے
نہ جانے کون وحشی خواب تھے
جن کو جھٹک کے
وہ یوں اک دم اکیلا ہو گیا ہے

کوئی تو خون کا رشتہ
کوئی پہچان تو ہوگی
کوئی مٹی کوئی پانی
کوئی زنجیر تو ہو گی
کبھی تو بھاگتے لمحوں میں
کوئی خاب سا لمحہ
کبھی تو ان گنت لفظوں میں
کوئی لفظ میٹھا سا
کبھی تو کھلکھلاتے قہقہوں میں
ہنسی کا ایک جھرنا سا
کبھی تو گیت چاہت کا
محبت کا کو ئی وعدہ
اُسے بھی روکتا ہو گا
اُسے بھی پُوچھتا ہوگا
کہ آخر کیا ہے ?
جس کو پا کے اُس نے
زمانے بھر کو یُوں ٹُھکرا دیا ہے

وہ گھر کی چار دیواری سے باہر
بہت مصروف سڑکوں کے کنارے
برستی بارشوں میں
اور برفانی طُوفانوں میں
سلیپنگ بیگ میں سُکڑا پڑا ہے

وہ آخر کونسے احساس کا مارا ہوا ہے
وہ آخر نفرتوں کی کونسی منزل کا راہی ہے ?

ثمینہ تبسم

موسم


ٓآج موسم خراب ہے پھر سے
چُھٹی کر لو
کہیں نہ جاوُ آج
اُس کی آنکھوں میں ناچتی شوخی
مجھ کو پل میں اسیر کرتی ہے
رنگ اترتے ہیں جسم و جاں میں پھر
خواہشیں ناچتی ہیں انگ انگ میں
جِلوتیں خِلوتوں میں ڈھلنے کو
جسم کی پیاس سے پگھلتی ہیں
جاں نکلتی ہے دھیرے دھیرے یوں
شدتِ طلب آگ ہو جیسے
میرے بستر کی کوری چادر پہ
سلوٹوں کے گلاب کھلتے ہیں
دن گزرتا ہے ڈوبتے ترتے
کون کہتا ہے برف ٹھنڈی ہے؟

بارش


تیز گرتی چاندی سی
اس چمکتی چادر کو
سر سے پاؤں تک اوڑھے
ناچتی ہوں بارش میں
تم اگر یہاں ہوتے
ہر دفعہ کی طرح پھر
پہلے چیختے مجھ پہ
" کیا تمہیں مصیبت ہے
چین کیوں نہیں آتا
چیک کیا تھا ٹی وی پہ
اور کہا تھا بارش ہے
آج گھر پہ ہی رہنا
واک پہ نہیں جانا
پر تمہاری عادت ہے
میری تم نہیں سُنتیں
دیکھی اپنی حالت اب
سر سے پاؤں تک بھیگی
کانپتی ہو سردی سے
دانت مت نکالو اب
کپڑے بدلو جلدی سے "
تولیئے سے میرے پھر
بال خشک کرتے تم
میرا جسم سہلاتے
اور دھیرے دھیرے پھر
گرم گرم سانسوں سے
لہجہ دھیما پڑ جاتا
میرے گیلے کپڑوں میں
اپنے جسم کی گرمی
اس طرح ملا دیتے
پیاس سے مری مٹی
بارشوں کو پی کر پھر
جیسے جینے لگتی ہے
ہر دفعہ یہ ہوتا ہے
پہلے تم گرجتے ہو
اور پھر برستے ہو
کیا عجیب اگنی ہے
پانیوں سے لگتی ہے
پانیوں سے بُجھتی ہے


ثمینہ تبسم

بے بی سٹر !!!


کہاں سے میں کہاں پہ آگئی ہوں
میں کیا تھی
اور اب کیا ہو گئی ہوں

بہت پہلے یہ سوچا تھا
کہ اب تک میں اکیلے ہی صبح سے شام تک ہر کام کرتی ہوں
میرے بچے بڑے ہوں گے تو سکھ کا سانس لوں گی میں
ذرا فُرصت ملے تو اپنے سارے شوق جو اب تک
میرے کاموں کی چکی میں سدا کُچلے گئے
پُورے کروں گی

وہ اچھی خُوشبوئیں برتُوں گی جو کب سے درازوں میں پڑی ہیں
وہ کارڈوں پہ لئے زیور جو لاکر میں پڑے سالوں سے میری راہ تکتے ہیں
وہ میرے قیمتی جُوتے، سویٹر، بیگ اور شالیں
سبھی ہر روز میں پہنا کروں گی

بہت پہلے یہ سوچا تھا
میرا چھوٹا سا گھر ہو گا
میں اپنے گھر کے آنگن کو حسیں پُھولوں سے بھر دوں گی
چنبیلی، موتیئے اور موگرے کے پُھول مہکیں گے
میرے سونے کے کمرے کی کُھلی کھڑکی کے ماتھے پہ رُوپہلا چاند دمکے کا
تو میں اور چاندنی سر جوڑ کے گھنٹوں ہمارے چاند کی باتیں کریں گے

بہت پہلے یہ سوچا تھا
میرے پڑھنے کے کمرے میں کتابوں سے بھری الماریاں ہوں گی
روزانہ شام کو جب سیر سے لوٹوں گی تو اچھی سی موسیقی لگا کر
دیر تک پڑھتی رہوں گی
کبھی اپنی جوانی کے دنوں کی کچھ بُنی کچھ ادھ بُنی یادوں کی چادر اُوڑھ کر آرام کُرسی پہ پڑی جُھولا کروںگی

بہت پہلے یہ سوچا تھا

اچانک ہی
میرے منجھلے نواسے نے
بڑے بیٹے کی چھوٹی سے بڑی بیٹی کو دھکا دے کے بستر سے گرایا تو
تھکن اور خامشی کی گہری نیلی دُھند میں چُپکا پڑا کمرہ
کبھی نانو کبھی دادو کی ہاہا کار سے گھبرا کے جاگ آٹھا

گھڑی کی گود میں بیٹھی ہوئی چڑیابھی آدھی رات کی بیچین گھڑیوں پہ بلک اُٹھی
میں اپنے خاب سے خابوں کی پگڈنڈی پہ سر پٹ دوڑتی
اُس دائرے میں آ گری
جس سے نکالنے کا کوئی رستہ نہیں ملتا

میری بھیگی ہوئی نظریں
میرے ٹوٹے ہوئے میلے کچیلے ناخُنوں پہ ترس کھاتی ہیں
میں اپنے ملگجے آنچل سے اُن کو ڈھانپ لیتی ہوں

کہاں سے میں
کہاں پہ آگئی ہوں
میں کیا تھی
اور اب کیا ہو گئی ہوں
--
Samina Tabassum

ثمینہ تبسم


ہم نے خابوں کی فصل بوئی تھی
کاش ۔۔۔۔۔تم تھوڑا حوصلہ کرتے !!!

ثمینہ تبسم

بہشتی زیور !!!


‘‘ اگر چاہو گی تو ہو گا
جو تم چاہو گی وہ ہو گا "

بھلا یہ سب کسی نے کب کہاں پُوچھا تھا مُجھ سے
میں غرقاب۔طلسم۔عشق و مستی
مسام۔جاں میں اُٹھتی ایک برفیلی سی خاہش
آگ میں تبدیل ہوتی دیکھتی اور سوچتی ہوں
وہ میرا مرد
جس پہ اپنی کچی عمر کی کلیاں نچھاور کیں
وہ آدھی رات کو مجھ کو جگاتا تھا
"اُٹھو۔۔۔۔۔۔ مُجھ کو ضرورت ہے "
تو میں بستر کی چادر کی طرح چُپ چاپ اُس کو اُوڑھ لیتی تھی
کہ وقت۔رُخصتی مُجھ کو
میری خالا یا پُھوپھی نے کتاب۔ خاص سے پڑھ کے سُنایا تھا
کہ " شوہر جو کہے
جب بھی کہے
جیسا کہے حق ہے
وگرنہ رات بھر تم پہ فرشتے لعنتیں بھیجیں گے
تم دوزخ میں جاؤ گی "
تو اس موہُوم سی دوزخ نے جیون بھر
مجھے میرے جہنم میں جلایا تھا

تو اب میں اس کے سینے میں دھڑکتے دل دل کو سُنتی ہوں
وہ اتنے پاس ہے کہ اُس کی خُوشبو سے
میرے سانسوں میں اک رنگین سا گرداب اُٹھتا ہے
میں اُس کی سُرمئی آنکھوں میں جو لکھا ہے پڑھتی ہوں
یہ وہ تحریر ہے جو میرے پتھریلے بدن میں چُھپ کے بیٹھی ہے
میں چاہتی ہوں اُسے کہہ دوں
کہ وہ مُجھ کو فتح کر لے
میں جس دُنیا سے آئی ہوں
وہاں تسکین بس مردوں کی ہوتی ہے

 ثمینہ تبسم

کُھلا خط !!!


میرے بچو
میرے بس میں نہیں کہ میں
تُمہارے میلے ُکُچیلے ہاتھوں کو
اپنے ہاتھوں سے دھوتی
اور اُنہیں چُوم کر 
اپنی دُکھی آنکھوں پہ رکھ لیتی
تمہارے پژمُردہ چہروں پہ
اس نا انصاف نظام نے
جو تھکن رکھ دی ہے
اُس پہ ابنی ممتا نچھاور کر سکتی
تُمہارے دُھول مٹی سے اٹے بالوں کو
اپنے آنسوؤں سے دھو سکتی
تُمہارے گرد آلود پیروں کے نیچے
اپنا دل نکال کے رکھ دیتی

میرے بس میں نہیں میرے بچو
کہ میں اس دُنیا کو بدل سکتی
مگر یاد رکھو
روٹی کا ہر نوالہ
جو میرے حلق سےاُترتاہے
وہ تُمہارے آنسوؤں سے نمکین ہوتا ہے
اور میں کُوڑے کےڈھیر پہ پڑی ہوئ
روٹی کا ہر ٹکڑا اُٹھا کر
اس طرح اپنی انکھوں سے لگا لیتی ہوں
کہ جیسے
ایک ماں کو
اُس کا کھویا ہُوا بجہ واپس جائے

میرے مزدور بچو
میری محبت تُمہارے نام
اور تمہاری جُرات کو میرا سلام
تمہاری مزدور ماں

ثمینہ تبسم

آئی لو یُو ٹُو !!!


اوووووووہ۔۔۔۔۔۔۔۔
تھینک یُو میرےسوہنے مٹھُو
کتنی پیاری خُشبُو ہے
دل میں اک مستی سی اس نے بھر دی ہے
جب بھی اس کو نئے سُوٹ پہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اووووووووں۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو ناں
میری الماری میں لٹکا کوئی ایک بھی سُوٹ
اتنی اچھی خُوشبُو کے قابل ہی نہیں
تُم بھی ناں۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اتنے پیسے خرج کئے اس بوتل پہ
اک اچھا سا سُوٹ بھی لیے کر آ جاتے
میں تو اک سیدھی سادی سی عورت ہوں
مُجھ کو ان ساری باتوں کی خبر کہاں
پر۔۔۔ تُم ہی تو کہتے ہو
میچنگ بُندے جب کانوں کو چُومتے ہیں
تُم کو اچھا لگتا ہے
چھن چھن کرتی چُوڑیاں تُم کو بھاتی ہیں
اور یاد ہے؟
بلکُل اس رنگ کی اک سینڈل تھی
وہاں جہاں سے پرسُوں جُوتے خریدے تھے
تُم بھی ناں۔۔۔۔۔۔
بس اپنی مرضی کرتے ہو
کیا ہے جو اس جیسا پرس دلا دیتے؟

اب دیکھو ناں
میں کب فرمائیشیں کرتی ہوں
یہ سب تو تُمہاری خاطر ہے
تُم ہی کو اچھا لگتاہے
جب سج بن کے
ہم شام کو کھانا کھانے باہر جاتے ہیں !!!

ثمینہ تبسم