Saturday, 21 June 2014

مُجھے سنگسار مت کرو بھائی !!!

وہ کہتے ہیں
" تُمہیں کیا تکلیف ہے ۔۔۔۔۔ تُم اپنے کام سے کام رکھو "
یہ میرا کام ہے میرے بھائی۔
جب کسی معصوم بچی سے زیادتی کی جاتی ہے۔۔۔
 جب کسی عورت کو سر _ عام اینٹیں مار مار کے ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔۔۔
 جب عورتوں کے کپڑے سڑکوں پہ پھاڑے جاتے ہیں اور اُن کے مُردہ جسموں کی بے حُرمتی کی جاتی ہے ۔۔۔ 
تو میں تُمہاری طرح کان مُنہ لپیٹ کے ، 
یہ سوچ کر وہاں سے نہیں نکل جاتی کہ ابھی میرے گھر میں میرے کپڑے دھونے، 
کھانا پکانے، بستر سجانے اور بچے پیدا کرنے والی موجُود ہے۔۔۔۔
 مُجھے کیا ??
لیکن میں وہاں موجُود ہوتی ہوں ۔۔۔
 اُن کو کفنانے، اُن پہ ماتم کرنے اور اُن سے معافی مانگنے کے لیئے کہ میں اُنھیں بچانے کے لیئے کُچھ نہیں کر سکی
مُجھےجاں سے مارنے یا سنگسار کرنے کی دھمکیاں دینے والو ۔۔۔۔
 یہ یاد رکھو کہ میں کوئی ایک نہیں ہوں ۔۔۔۔
 میں تو ہر جگہ ہوں ۔۔۔
 ہر گھر میں ہر دل میں ہوں ۔۔۔۔
وہ دُور قُراقرم کی پہاڑیوں پہ ۔۔۔۔ 
خُشبودار درختوں سے ڈھکے ۔۔۔۔
 ایک چھوٹے سے کچے مکان میں ۔۔۔۔۔
 اپنی لکڑی گی گُڑیا کو سُوکھے پتے پہ لکھی کہانی سُناتے ہوئے ۔۔۔۔
 کہ آج میری اُستانی جی نے مُجھے شاباش دی کہ میں نے اپنا سبق اچھی طرح سے یاد کیا تھا
وہ ۔۔۔۔ وہاں ۔۔۔۔ تھر کے بھُوکے پیاسے صحرا میں ۔۔۔ اپنے آس پاس جاں بلب لوگوں کو بہلا رہی ہوں کہ بہت جلد پڑھ لکھ کے میں اپنے پیروں پہ کھڑی ہو جاؤں گی تو سب سے پہلے تُم لوگوں کے لئے روٹی خریدوں گی
اُدھر دیکھو ۔۔۔۔ بلوچستان کے ایک دُور دراز گاؤں میں ۔۔۔۔ بنا بجلی اور پانی کے ایک غریب سا گھر ۔۔۔۔۔ میں اپنے بابا سے فریاد کر رہی ہوں کہ مُجھے چند رُوپوں کی خاطر مت بیچو ۔۔۔۔ میں کوئی بکری نہیں ہوں ۔۔۔۔مُجھے کُچھ بڑا ہونے دو ۔۔۔ سکول جانے دو ۔۔۔۔ پھر دیکھنا میں کتنی انمول ہو جاؤں گی۔
وہاں اُس طرف ۔۔۔۔ تنگ ذہنوں کی بند کھڑکیوں سے جھانکتی ۔۔۔۔۔۔ اُونچے شملے والے ۔۔۔۔۔اس قبائلی علاقے میں .... اپنے قبیلے کے سردار کے گھر سر جُھکائےبیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کہ صرف روٹی، کپڑے کے لیئے تو اللہ جی نے مُجھے اس دُنیا میں نہیں بھیجا تھا ۔۔۔۔۔۔ مُجھ سے میری روٹی لے لو۔۔۔۔۔ مُجھے ایک کتاب دے دو۔۔۔۔۔۔ تا کہ میں سر اُٹھا کے جی سکوں
اور یہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔ میں یہاں بھی ہوں ۔۔۔۔۔ پنجاب کی اس بہت بڑی اور خُوبصورت حویلی میں ۔۔۔۔ لوگ میری قسمت پہ رشک کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور میں سوچتی ہوں کہ اگر پڑھی لکھی ہوتی تو ایک بُوڑھے آدمی کی چوتھی بیوی ہونے کی بجائے ایک اُستانی ہوتی ۔۔۔۔ پھر میں خُود پہ فخر کرتی ۔
اور میں سندھ کے اس گھر میں بھی موجُود ہوں ۔۔۔۔۔ اپنی دو پھُپھیوں کی طرح ۔۔۔۔ میری شادی بھی قرآن پاک سے کر دی گئی ہے ۔۔۔۔۔ خُوبصورت قیمتی کپڑوں اور زیوروں میں زندہ دفن ۔۔۔۔۔ اکثر سوچتی ہوں کیا میرے بھایئوں نے کبھی قُرآن کھول کر پڑھا بھی یے ?
میں تو ہر جگہ مو جُود ہوں ۔۔۔۔ اپنے خالق کی قُوت _ تخلیق کا مظہر ۔۔۔۔۔ تُمہاری آیئندہ نسلوں کی ضامن ۔۔۔۔۔ تُمہاری ماں، بہن اور بیٹی۔ میں تو ہر ایک میں نظر آتی ہوں
آخر کتنی ثمیناؤں کو مارو گے ??
اُس دن سے ڈرو جب پتھر ختم ہو جایئں گے اور تُم قوم - لُوط کی طرح عذاب _ الہی کا شکار ہو کر عبرت کا نمُونہ بن جاؤ گے ۔
تو میرے پیارے بھائیو !
مُجھے ڈرانے دھمکانے کی بجائے اُس خاموش طُوفان سے بچنے کی تدبیر کرو جو دبے قدموں تُمھارے گھروں کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ عزت اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو نہیں بُھوک، غُربت اور جہالت کو سنگسار کرکے بچائی جا سکتی ہے۔

1 comment: