Monday, 9 June 2014

پرائیڈ ۔۔۔۔۔ ُعرفی کے لیئے !!!


سُنا ہے
تُم میرے جیسے ہو
بُلکل میرے جیسے ہو

تُمہیں بھی اپنے بالوں میں
سجے بیلے کے گجروں کی مہک
مدہوش رکھتی ہے

تُمہارے کان بھی
چاندی کے جُھمکوں سے
سُریلے لمس میں ڈُوبی ہوئی سرگوشیاں
سُن سُن کے ہستے ہیں

سمندر کی طرح
بےچین سی آنکھیں
مُحبت کی سُبک آہٹ پہ فورا” جاگ جاتی ہیں

تُمہارے ہاتھ بھی
مہندی کی خُوشبو
اور کنگن کی کھنک سے پیار کرتے ہیں

کسی کے نام کی پائل پہن کر
تُمہارے پاؤں
چھم چھم ناچنے کےخواب تکتے ہیں

تُم اپنے دل کی گلیئوں میں
چمکتا سُرخ آنچل اورڑھ کے پھرتی
وہ بیکل ہیر ہو
جو اپنے رانجھے کے لیئے
دُنیا کے سب کھیڑوں سے لڑتی ہے

یہ سب تو ٹھیک ہیے پر تُم
نہ جانے کب سے اپنے جسم کے اندر نہیں ہو
تُمہاری روح کا پنجرہ نہ جانے کس نے چوری کر لیا ہے

کہ اب تُم آئینہ کے سامنے
گالوں پہ ریزر پھیرتے
اک اجنبی چہرے پہ
آنکھیں بن کے کہتی ہو

میں جو کُچھ ہوں
وہ دکھتی کیوں نہیں ہوں
میں جو دکھتا ہوں
ویسا کیوں نہیں ہوں

یہ وہ مُعمہ ہے
جسکی ایک حتمی ہاں یا ناں
مذہب، سیاست اور سسٹم کے گلے میں پھانس بن کے چُب رہی ہے

سُنا ہے
تُم میرے جیسے ہو
بلکل مئرے جیسے ہو

ثمینہ تبسم

1 comment:

  1. اگر عرفی کے بالوں میں بیلے کے گجرے ہیں اور وہ بھی رانجھے کی تلاش میں پھرتا ہے تو خوشخبری ہے آپ دونوں کے لئے کہ gender bias کی جنگ میں آپ دونوں بہنیں جیت چکی ہیں...

    ReplyDelete