Sunday, 29 June 2014

مُجھے اچھا نہیں لگتا !!!


یہ سب کُچھ جو بدلتا جا رہا ہے
یہ سب کُچھ جو میری سوچوں سےبالکل مُختلف ہے
یہ سب کُچھ جو میری قُدرت سے باہر ہے
مُجھے اچھا نہیں لگتا

ابھی کل تک
میرے بچے
میرے ہاتھوں سے کھاتے تھے
میری اُنگلی پکڑ کر پاؤں رکھتے اور اُٹھاتے تھے
وہ سب کُچھ سیکھتے تھے جو بھی میں اُن کو سکھاتی تھی
جہاں بھر میں
میں ۔۔۔ اُن کی ماں
سبھوں سے عقل میں
رُتبے میں
ہر رشتے سے بڑھ کے تھی
وہ مُجھ پہ ناز کرتے تھے
میری آنکھوں میں احساس _ تشکُر کے حسیں موتی چمکتے
اور دُنیا
ایک جننت سی لگا کرتی

مگر
اب سب بدلتا جا رہا ہے
مُجھے لگتا ہے
جیسے میں
جو کل تک گھر کی پنچایئت میں اک پردھان جیسی تھی
نہ جانے کس طرح
بہتے سمعے کے ساتھ
گھر کی ڈیوڑھی کے تنگ اور تاریک کونے میں بچھی
ٹُوٹی ہوئی اک چارپائی پہ
خُود اپنے سر کی چادر کا سرہانہ رکھ کے لیٹی
ایک بُڑھیا بن گئی ہوں
جو ہر آئے گئے سے بات کرنے کا بہانہ ڈُھونڈتی ہے
وہ بُڑھیا
جس کے پیروں کے تلے
جیون کی بھیگی ریت اب تھوڑی ہی باقی ہے
وہ بُڑھیا
جس کے کھچڑی سر پہ
اُن خابوں کی ٹھنڈی راکھ بکھری ہے
جو گُزرے وقت کے مُردار خانے میں
نہ جانے کب سے دفنائے گئے ہیں
وہ بُڑھیا
جس کے رعشے سے لرزتے ہاتھ میں اب تک
گئے وقتوں کا چابُک ہے
وہ اس چابُک سے
اپنے آنے والے کل کی وحشت کو ڈراتی ہے

وہ بُڑھیا میں ہوں
اور میرے
بہت معصوم سے
سیدھے سے بچے
اب ۔۔۔ بدلتے جا رہے ہیں
میں کُچھ بولوں
بڑے انداز سے کندھے جھٹک کر " آئی نو " کہتے
کبھی کالی
کبھی نیلی ہری آنکھوں سے
مُجھ کو دیکھ کر وہ مُسکراتے ہیں
میں کانوں پہ لگے ہیڈفُون
آنکھوں میں سجے لینزز کے پیچھے
اپنے بچے ڈھونڈتی ہوں
تو بچے مُجھ پہ ہنستے ہیں
میرے بچے
بڑے ہو کر
مُجھے بچہ سمجھتے ہیں
مُجھے اچھا نہیں لگتا

مُجھے اچھا نہیں لگتا
یہ سب کُچھ جو بدلتا جا رہا ہے

ثمینہ تبسم

1 comment:

  1. Brilliant articulation on change of time, values and generation gape – love this poem

    ReplyDelete